Thursday, November 3, 2011

Urdu Short Stories By M.Mubin Part Eight


 

افسانہ

جہنم

از:۔ایم مبین

تین دن میں پتہ چل گیا کہ مگن بھائی نےاسےکمرہ کرایےپر نہیں دیا بلکہ اسےکمرہ کرائےپر دینےکےنام پر ٹھگ لیا ہے۔
اب سوچتا ہےتو اسےخود حیرت ہوتی ہےکہ اس سےاتنی بڑی غلطی کس طرح ہوگئی ؟ بس کچھ دیر کےلئےوہ اس بستی میں آیا ۔ مگن بھائی نےاپنی چال کا بند کمرہ کھول کر اسےبتایا 10×12کا کمرہ تھا ۔ جس کےایک کونےمیں کچن بنا ہوا تھا ۔ اس سےلگ کر چھوٹا سا باتھ روم جسےعرف عام میں موری کہا جاسکتا تھا ۔ کمرہ میں ایک دروازہ تھا جو تنگ سی گلی میں کھلتا تھا ۔ دو کھڑکیاں تھیں ہوا اور روشنی کا کافی اچھا انتظام تھا ۔ زمین پر رف لادی تھی ۔ کمرےکا پلاسٹر جگہ جگہ سےاکھڑا ہوا تھا لیکن سمینٹ کا تھا ۔ چھت پترےکی تھی ۔ گلی کےدونوں جانب کچےجھونپڑوں کا سلسلہ تھا جو دور تک پھیلا تھا ۔ وسط سےایک نالی بہہ رہی تھی ۔ جس سےگندہ پانی ابل کر چاروں طرف پھیل رہا تھا جس کی بدبو سےدماغ پھٹا جارہا تھا ۔ مگن بھائی کی وہ چال سات آٹھ کمروں پر مشتمل تھی ۔ اس کےذہن نےفیصلہ کیا کہ اسےاس شہر میں اتنا اچھا کمرہ اتنےکم داموں پر کرائےپر نہیں مل سکتا ہے۔ اس شہر میں اس سےاچھےکمرےکی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی ۔ وہ فوراً کمرہ لینےپر راضی ہوگیا ۔
دوسرےدن اس نےپچیس ہزار روپےمگن بھائی کو ڈپازٹ کےطور پر ادا کئی۔ مگن بھائی نےفوراً کرایہ کےمعاہدےکےکاغذات دستخط کرکےاس کےحوالےکردئے۔ بجلی اور پانی کا اپنی طور پر انتظام کرنےکےبعد اسےکرائےکےطور پر ہر ماہ مگن بھائی کو صرف سو روپےادا کرنےتھے۔ کرائےکا قرار نامہ صرف گیارہ ماہ کےلئےتھا لیکن مگن بھائی نےوعدہ کیا تھا وہ گیارہ ماہ کےبعد بھی اس سےوہ کمرہ خالی نہیں کرائےگا ۔ وہ جب تک چاہےاس کمرہ میں رہ سکتا ہے۔ اگر اس کا کہیں دوسری جگہ اس سےبہتر انتظام ہوجاتا ہےتو وہ اپنی ڈپازٹ کی رقم واپس لےکر کمرہ خالی کرسکتا ہے۔
اس شام اپنےدوست کےگھر سےاپنا مختصر سا سامان لےکر دوست اور اس کےگھر والوں کو خدا حافظ کہہ کر وہ اپنےنئےگھر میں آگیا ۔ دو تین گھنٹےتو کمرےکی صفائی میں لگ گئےباقی تھوڑےسےسامان کو قرینےسےسجانےمیں ۔ کمرےمیں بجلی کا انتظام تھا ۔ اسےصرف بلب لگانےپڑے۔ کمرےکی صفائی سےوہ اتنا تھک گیا تھا کہ اس رات وہ بنا کھائےپئےہی سو گیا ۔ سویرےحسبِ معمول چھ بجےکےقریب آنکھ کھلی تو اپنےآپ کو وہ تر و تازہ محسوس کررہا تھا ۔
بستی میںپانی آیا تھا ۔ گھر کےسامنےایک سرکاری نل پر عورتوں کی بھیڑ تھی ۔ ” پانی کا انتظام کرنا چاہیئے۔ “ اس نےسوچا ۔ لیکن پانی بھرنےکےلئےکوئی برتن نہیں تھا ۔ چہل قدمی کرتےہوئےاپنےگھر سےتھوڑی دور آیا تو اسےایک کرانےکی دوکان نظر آئی ۔ اس دوکان پر لٹکےپانی کےکین دیکھ کر اس کی بانچھیں کھل گئیں ۔ کین خرید کر وہ نل پر آیا اور نمبر لگا کر کھڑا ہوگیا ۔ نل پر پانی بھرتی عورتیں اسےعجیب نظروں سےگھور کر آپس میں ایک دوسرےکو کچھ اشارےکررہی تھیں ۔ اس کا نمبر آیا تو اس نےکین بھرا اور اپنےگھر آگیا ۔ نہا دھو کر کپڑےبدلےگھر میں وہ ناشتہ تو بنا نہیں سکتا تھا۔ ناشتہ بنانےکےلئےدرکار کوئی چیز بھی نہیں تھی ۔
کسی ہوٹل میں ناشتہ کرنےکا سوچتا ہوا وہ گھر سےباہر نکل آیا ۔ سوچا ناشتہ کرنےتک آفس کا وقت ہوجائےگا تو وہ آفس چلا جائےگا ۔ اس دن وہ اپنےآپ کو بےحد چاک و چوبند اور خوش و خرم محسوس کررہا تھا ۔ ایک احساس بار بار اس کےاندر ایک کروٹیں لےرہا تھا کہ اب وہ اس شہر میں بےگھر نہیں ہے۔ اس کا اپنا ایک گھر تو ہے۔
کل تک یہ احساس اسےکچوکتا رہتا کہ اس کےپاس ایک اچھی نوکری ہےلیکن رہنےکےلئےایک چھت نہیں ہے۔ وہ دوسروں کی چھت کےنیچےپناہ لئےہوئےہی۔ اور اس چھت کی پناہ کبھی بھی اس کےسر سےہٹ سکتی ہے۔ اسےاپنی قابلیت کی بنا پر اس شہر میں نوکری تو مل گئی تھی ۔ لیکن اس شہر میں اس کا نہ تو کوئی رشتہ دار تھا اور نہ شناسا ۔ اس نےڈیوٹی جوائنٹ تو کرلی لیکن رہائش کا سب سےبڑا مسئلہ کسی عفریت کی طرح اس کےسامنےمنہ پھاڑےکھڑا تھا ۔ اس مسئلےکا وقتی حل اس نےایک درمیانی درجےکےہوٹل میں ایک کمرہ کرائےسےلےکر نکال لیا ۔ کچھ دنوں میں ہی اسےمحسوس ہوا کہ اس کی تنخواہ میں وہ اس ہوٹل میں صرف رہ سکتا ہے‘ کھاپی نہیں سکتا ۔ اس لئےاس نےدوسرےسہارےکی تلاش شروع کردی ۔ اسےایک ہوسٹل میں سر چھپانےکی جگہ مل گئی ۔ دو چار مہینےاس نےاس ہوسٹل میں نکالے۔ لیکن ایک دن وہ سخت مصیبت میں پھنس گیا ۔ ایک دن پولس نےاس نےہوسٹل پر چھاپا مارا اور اس ہوسٹل کےسارےمکینوں کو گرفتار کرلیا ۔ اس ہوسٹل سےپولس کو منشیات ملی تھیں ۔ اس ہوسٹل میں کچھ غیر سماجی عناصر منشیات کا کاروبار کرتےتھے۔ بڑی مشکل سےوہ پولس کےچنگل سےچھوٹ پایا ۔
وہ ایک بار پھر بےگھر ہوگیا تھا ۔ وہ اپنےلئےکسی چھت کی تلاش کررہا تھا کہ اچانک اس کی ملاقات ایک دوست سےہوگئی ۔ وہ دوست کافی دنوں کےبعد ملا تھا ۔ اس دوست کا اس شہر میں چھوٹا سا کاروبار تھا ۔ اس نےاپنا مسئلہ اس کےسامنےرکھا تو اس نےبڑےخلوص سےاس کو پیش کش کی کہ جب تک تمہارا کوئی انتظام نہیں ہوجاتا تم میرےگھر میں رہ سکتےہو ۔ انتظام ہونےکےبعد چلےجانا ۔ اسےاُس وقت اپنا وہ دوست ایک فرشتہ معلوم ہوا ۔ وہ اپنےاس دوست کےگھر رہنےلگا ساتھ ہی ساتھ اپنےلئےکوئی کمرہ ڈھونڈنےلگا ۔
شہر میں کرائےسےمکان ملنا مشکل تھا ۔ مکان خریدنےکی اس کی استطاعت نہیں تھی ۔ جو مکان ملتےتھےان کا کرایہ اس کی نصف تنخواہ سےزائد تھا اس پر ڈپازٹ کی کثیر رقم کی شرط ۔ کچھ دنوں بعد تھک ہار کر اس نےسوچا کہ اسےایسےعلاقوں میں مکان تلاش کرنا چاہیئےجہاں کمروں کےدام کم ہوں بھلےہی وہ علاقےاس کےمزاج و معیار کےنہ ہوں ۔ اسےاس سےکیا لینا دینا ہے۔ اسےصرف رات میں ایک چھت چاہیئے۔ دن بھر تو وہ آفس میں رہےگا ۔
اسےایک اسٹیٹ ایجنٹ نےمگن بھائی سےملایا ۔ مگن بھائی نےبتایا کہ بستی میں ان کی چال میں ایک کمرہ خالی ہےوہ پچیس ہزار روپےڈپازٹ پر دیں گے۔
ٹھیک ہےمگن بھائی ! میں ڈپازٹ کا انتظام کرکےآپ سےملتا ہوں ۔ “ کہہ کر وہ چلاآیا اور پیسوں کےانتظام میں لگ گیا ۔ اتنےپیسوں کا انتظام بہت مشکل تھا ۔ اپنےشہر جاکر اس نےدوستوں اور رشتہ داروں سےقرض لیا اور گھر کےزیورات ایک بینک میں گہن رکھ کر قرض لیا اور پیسوں کا انتظام کرکےواپس آیا ۔ مگن بھائی نےکمرہ دکھایا اس نےکمرہ پسند کرکےپیسےمگن بھائی کو دئےاور رہنےلگا ۔
شام کو جب وہ ضروری سامان سےلدا اپنےگھر آیا تو اپنےگھر کےقریب پہونچنےپر اس کےقدم زمین میں گڑ گئے۔ گلی میں چاروں طرف پولس پھیلی ہوئی تھی ۔
کیا بات ہےبھائی ! یہ گلی میں پولس کیوں آئی ہے؟ “ اس نےایک آدمی سےپوچھا ۔
ہوگا کیا ؟ دارو کےاڈےپر جھگڑا ہوا اس میں چاقو چل گئےاور ایک آدمی ٹپک گیا ۔ “ یہ کہتا ہوا وہ آدمی آگےبڑھ گیا ۔
تو اس جگہ شراب کا اڈہ بھی ہے؟ “ سوچتا ہوا وہ اپنےگھر کی طرف بڑھا اور سامان پیروں کےپاس رکھ کر دروازہ کھولنےلگا ۔ سامان گھر میں رکھ کر وہ معاملہ کی تفصیلات جاننےکےلئےباہر آیا تو تب تک پولس جاچکی تھی اور لاش بھی اٹھوائی جاچکی تھی ۔ آس پاس کےلوگ جمع ہوکر اس واقعہ کےبارےمیں باتیں کررہےتھے۔
ابھی تو پولس نےاڈہ بند کردیا ہے۔ کل پھر شروع ہوجائےگا ۔
یہ اڈہ ہےکہاں ؟ “ اس نےپوچھا تو وہ لوگ اسےسر سےپیر تک دیکھنےلگے۔
بابو کس دنیا میں ہو ؟ تم جس چال میں رہتےہو اسی میں تو دارو کا اڈہ ہے۔
میری چال میں شراب کا اڈہ ؟ “ اس نےحیرت سےیہی بات دہرائی ۔
ہاں ! نہ صرف شراب خانہ بلکہ ایک جُوئےکا اڈہ بھی ہے۔ ایک کمرےمیں منشیات فروخت ہوتی ہیں اور دوسرےدو کمروں میں دھندہ کرنےوالیاں رہتی ہیں ۔ “یہ سنتےہی اس کی آنکھوں کےسامنےتارےناچنےلگے۔ اس کی چال میں شراب ‘ جوئےاور منشیات کےاڈےہیں یہاں طوائفیں بھی رہتی ہیں اور اب وہ اسی چال میں رہ رہا ہے۔ اس دن تو اسےصرف اس بات کا پتہ چلا کہ وہ کیسی جگہ رہنےآیا ہےلیکن دوچار دنوں کےبعد اسےیہ پتہ چلا کہ وہاں رہنا کتنا بڑا عذاب ہے۔ لوگ بےدھڑک گھر میں گھس آتےتھےاور طرح طرح کی فرمائشیں کرتےتھے۔
ایک بوتل چاہیئے۔
ذرا ایک افیون کی گولی دینا ۔
ایک گرَد کی پوڑی دینا ۔
جمنا بائی کو بلانا ‘ آج اس کا فل نائٹ کا ریٹ دےگا ۔ “ وہ یہ سب سن کر اپنا سر پکڑ لیتا اور اس شخص کو پکڑ کر باہر کردیتا اور اسےبتاتا کہ اسےاس کی مطلوبہ چیز کہاں مل سکتی ہے۔ اس درمیان اسےپتہ چل گیا تھا کہ کہاں کون سا

دھندہ چلتا ہےاور اس دھندےکا مالک کون ہے۔ دروازہ کھلا چھورنا ایک سر درد تھا اس لئےاس نےدروازےکو ہمیشہ بند رکھنےمیں ہی عافیت سمجھی ۔ لیکن دروازہ بند رکھنا تو اور بھی سر درد تھا ۔ دروازہ زور زور سےپیٹا جاتا ۔ جیسےابھی توڑ دیا جائےگا ۔ وہ جھلا کر دروازہ کھولتا تو وہی سوال سامنےہوتےتھےجو دروازہ کھلا ہونےپر اجنبیوں کےذریعہ گھر میں گھس کر پوچھےجاتےتھے۔ وہ سوچتا وہ اکیلا ہےصرف رات کو یہاس سونےکےلئےآتا ہےتو اس کا یہ حال ہی۔ اس کےبجائےوہ یا کوئی بھی شریف آدمی اپنی فیملی کےساتھ تو ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ہے۔
یہاں اس کا رہنا محال ہےتو بھلا وہ اپنی فیملی یہاں لانےکےبارےمیں کس طرح سوچ سکتا ہے۔ ہر روز ایک نئی کہانی ‘ ایک نیا ہنگامہ اور ایک نیا واقعہ سامنےآتا تھا ۔ شرابی جواری آپس میں لڑ پڑتےاور یہ تو ایک عام سی بات تھی ۔
ایک گاہک جمنا بائی کےگھر میں جانےکی بجائےسامنےوالےرگھو کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی سےچھیڑ خانی کرنےلگا ۔ پولس چھاپا مارنےآئی تو شراب کا اڈہ چلانےوالوں نےشراب کےایک دو کین پیچھےرہنےوالےگنپت کےگھر میں چھپا دئےپولس نےوہ کین ڈھونڈ نکالے۔اڈہ چلانےوالےتو بھاگ گئےلیکن بےچارہ گنپت اس جرم میں پکڑا گیا ۔
سامنےکی شیاملہ بائی جمنا بائی کےکمرےکےپاس کھڑی تھی پولس نےجمنا بائی کےاڈےپر ریڈ کی اور جسم فروشی کرنےکےجرم میں شیاملہ کو پکڑ کر لےگئی ۔ وہ بڑی مشکل سےچھوٹ پائی ۔
منشیات کا دھندا کرنےوالےسعید کےگھر میں منشیات پھینک گئےاور پولس سعید کےگھر سےمنشیات برآمد کرکےاسےاٹھالےگئی ۔ یہ سارےواقعات دیکھ کر اس کا دل دہشت کےمارےدہل جاتا تھا ۔ وہ سوچتا کہ ہوسکتا ہےیہ واقعہ کل اس کےساتھ بھی ہو ۔ غنڈےاس کےکمرےمیں منشیات پھینک جائیں یا شراب رکھ جائیں اور پولس اس کےگھر سےوہ چیزیں برآمد کرکےاسےبھی اسی طرح پکڑ کر لےجائے۔جمنا بائی اس کےکمرےکےسامنےکھڑی ہوکر کسی گاہک سےمول تول کررہی ہوگی اور پولس جمنا کو تو دھر لےگی اور اسےبھی اس جرم میں گرفتار کر کےلےجائےگی ۔ کہ وہ اس جگہ جسم فروشی کا دھندہ کرواتا ہے۔
یہاں اس چھت کےنیچےرہنےسےتو بہتر ہےبےگھر آسمان کی کھلی چھت کےنیچےرہا جائے۔ وہاں رہتےہوئےدل میں صرف اسی کرب کا احساس ہوگا کہ وہ بےگھر ہےلیکن اس چھت کےنیچےرہ کر لمحہ لمحہ دہشت کا اسیر ہوکر تو نہیں جئےگا ۔ ان سب باتوں سےگھبرا کر اس نےایک فیصلہ کرلیا کہ اسےیہ گھر چھوڑ دینا چاہیئے۔ جب تک کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوجاتا بھلےاسےبےگھر رہنا پڑےگا لیکن وہ اس دہشت و عذاب سےتو بچا رہےگا ۔ وہ مگن بھائی کےپاس گیا اور اس سےصاف کہہ دیا ۔ ” میرا ڈپازٹ واپس کردیجئے۔ مجھےآپ کا کمرہ نہیں چاہیئے۔
ارےکیسےواپس کرےگا ۔ ہمارا گیارہ مہینےکا ایگریمینٹ ہوا ہےاس لئےتم گیارہ مہینےسےپہلےوہ کمرہ خالی نہیں کرسکتا ۔
تم گیارہ مہینےکی بات کرتےہو ۔ میں اس جگہ ایک لمحہ بھی نہیں رہ سکتا ۔ اپنی پوری چال شراب ، جوئے، منشیات اور طوائفوں کےاڈےچلانےوالوں کو کرائےپر دی ہےاور اس جگہ مجھ سےشریف آدمی کو بھی دھوکےسےکرائےپر رکھا ۔ تمہیں ایسا ذلیل کام کرتےہوئےشرم آنی چاہئے۔ میرےبجائےکسی شراب ، جوئے، منشیات اور جسم فروشی کا دھندہ کرنےوالےکو کرائےپر دےدیتے۔
ارےبھائی ! ان لوگوں کو میں نےکمرےکرائےسےکہاں دئےہیں ۔ میں نےوہاں چال بنائی تھی اور اس لالچ میں کمرےنہیں دئےتھےکہ مجھےزیادہ ڈپازٹ اور کرایہ ملےگا ۔ وہ غنڈےبدمعاش لوگ تالہ توڑ کر ان کمروں میں گھس آئےہیں اور اپنےکالےدھندےکرنےلگے۔ میں نےصرف ایک شریف آدمی کو ایک کمرہ کرائےسےدیا تھا جو کچھ دنوں قبل وہاں کےماحول سےڈر کر بھاگ گیا ۔ اس کمرےپر بھی غنڈےقبضہ نہ کرلیں اس لئےمیں نےوہ کمرہ تمہیں کرئےپر دےدیا ۔ اب تم اسےخالی کرنےکی بات کرتےہو ۔ ارےبابا جاو

¿ ! غنڈوں نےتمہاری پوری چال پر قبضہ کرلیا اور تم نےپولس میں شکایت بھی نہیں کی ؟ “ دو ۔ تم وہ کمرہ چھوڑ دوگےاور میں تمہیں ڈپازٹ واپس کردوں گا تو اس کمرےپر کوئی بھی غنڈہ قبضہ کرلےگا ۔ مگن بھائی کی بات سن کر اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا ۔ اسےلگا مگن بھائی تو اس سےزیادہ مظلوم ہے۔ ” مگن بھائی ! غنڈوں نےتمہاری پوری چال پر قبضہ کرلیا اور تم نےپولس میں شکایت بھی نہیں کی ؟
شکایت کرکےکیا مجھےاپنی زندگی گنوانی ہے۔ وہ سب غنڈےلوگ ہیں ان کےمنہ کون لگےگا ۔ پولس ان کا کچھ نہیں بگاڑےگی ۔ پولس ان سےملی ہوئی ہے۔ شکایت پر تھوڑی دیر کےلئےان کو اندر کرےگی وہ پھر آزاد ہوکر میری جان کےدشمن بن جائیں گے۔ اس لئےمیں نےیہ سوچ لیا کہ وہ میری چال ہےہی نہیں ۔ یہ سمجھ لیا کہ مجھےبزنس میں گھاٹا ہوگیا ۔ دیکھو اگر تم وہاں رہنا نہیں چاہتےتو کسی سےبھی اپنی ڈپازٹ کی رقم ڈپازٹ کےطور پر لےکر وہ کمرہ اسےدےدو ۔ مجھےکوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔ میں اسےبھی بنا کرائےکا قرار نامہ بنا کر دےدوں گا ۔ “ مگن بھائی کی باتیں سن کر وہ چپ چاپ واپس آگیا ۔
اس رات اسےرات بھر نیند نہیں آئی ۔ اس کےسامنےایک ہی سوال تھا ۔ وہ وہاں رہےیا چلا جائے؟ فی الحال تو ایسی صورتِ حال تھی ۔ وہ اس جگہ سےکہیں جا نہیں سکتا تھا ۔ وہاں رہنا ایک عذاب تھا ۔ لیکن وہ اتنا بھی بزدل ڈرپوک نہیں تھا کہ اس عذاب سےڈر کر فرار کی راہ اختیار کرلے۔ ہر طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنےکےلئےاس نےخود کو تیار کرلیا تھا ۔ اسےصرف رات میں ہی تو ان ذہنی کربوں کو جھیلنا پڑتا تھا ۔ دن میں تو وہ آفس میں رہتا تھا ۔ دن میں وہاں کیا ہوتا ہےیا جو کچھ ہوتا تھا ان سب باتوں کےسامنےوہ نہیں ہوتا تھا ۔ لیکن رات گھر آنےپر دن میں جو کچھ ہوتا تھا وہ ساری کہانی اسےمعلوم پڑجاتی تھی ۔
دو شرابیوں نےاوشا کو چھیڑا ‘ ایک غنڈےنےاشوک کی بیوی لکشمی کی عزت لوٹنےکی کوشش کی ۔ غنڈوں میں جم کر مار پیٹ ہوئی تو کئی زخمی ہوئےاور پورا کمرہ تہس نہس ہوگیا ۔ آج غنڈوں کےٹکراو

¿ سامنےرہنےوالےلکشمن کےدس سالہ لڑکےکو گولی لگ گئی اسےاسپتال لےجایا گیا اب اس کی حالت بہت نازک ہے۔
جو لوگ اسےیہ کہانیاں سناتےوہ ان پر برس پڑتا تھا ۔” کب تک تم لوگ یہ سب برداشت کرتےرہو گے۔ تم لوگ شریف ہو ۔ یہ محلہ شریفوں کا ہےاور غنڈوں نےاس محلےپر قبضہ کرکےاسےشریفوں کےرہنےکےلائق نہیں رکھا ۔ اگر تم چپ رہےاور چپ چاپ سب برداشت کرتےرہےتو تم لوگوں کےساتھ بھی یہی ہوگا اور ہمیشہ ہوتا رہےگا ۔ اگر اس سےنجات حاصل کرنی ہو تو اس کےخلاف احتجاج کرو ۔ غنڈوں بدمعاشوں کےخلاف متحد ہوجاو

¿ شکایت پر پولس کو کاروائی کرنی ہی پڑےگی اور یہ سب کچھ رک جائےگا ۔
معین بھائی ! ہم یہ نہیں کرسکتے۔ “ اس کی باتیں سن کر وہ سہم گئے۔ ” اگر ہم نےایسا کیا تو ممکن ہےپولس کاروائی کرے۔ لیکن وہ زیادہ دنوں تک غنڈوں کو لاک اپ میں نہیں رکھ سکےگی ۔ شکایت کرنےپر وہ لوگ ہمارےدشمن ہوجائیں گے۔ اور آزاد ہوتےہی ہم سےبدلہ ضرور لیں گی۔ اس لئےہم سوچتےہیں ان غنڈوں سےکیا الجھا جائے۔ جو کچھ ہورہا ہےچپ چاپ برداشت کرنےمیں ہی عافیت ہے۔
یہی تو آپ لوگوں کی کمزوری ہے۔ احتجاج کی ہمت اور جرا

¿

¿کرسکتےہیں ؟ “ وہ غصےسےبولا ۔ ” اگر میرےساتھ ایک دن بھی ایسا کچھ ہوا تو میں بالکل برداشت نہیں کروں گا ۔ جو میرےساتھ ایسی ویسی حرکت کرےگا ‘ اسےمزہ چکھا دوں گا ۔ “ دوسرےدن وہ شام کو آفس سےآیا تو اسےچار پانچ آدمیوں نےگھیر لیا ۔ ان کی صورت و شکل ہی ظاہر کررہی تھی کہ وہ غنڈےہیں ۔
اےبابو ! کیوں بہت لیڈر بننےکی کوشش کررہا ہے؟ ہم لوگوں کےخلاف بستی والوں کو بھڑکا رہا ہے۔ تُو نیا نیا ہےاس لئےتجھےہماری طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پرانےہیں اس لئےان لوگوں کو ہماری طاقت معلوم ہے۔ اس لئےیہ کبھی ہم سےنہیں الجھیں گے۔ اگر یہاں رہنا ہےتو خیریت اسی میں ہےکہ تم بھی پرانےبن جاو

¿

¿ ہونےدو ۔ “ ایک غنڈہ اسےگھورتا ہوا بولا ۔
دادا ! یہ باتوں سےنہیں مانےگا ۔ ایک دو ہڈی پسلی ٹوٹےگی تو ساری لیڈری بھول جائےگا ۔ اسےابھی مزہ چکھاتا ہوں ۔ “ ایک غنڈےنےیہ کہتےہوئےاپنی ہاکی اسٹک ہوا میں لہرائی ۔
نہیں ! آج کےلئےاتنی وارننگ کافی ہے۔ “ اس غنڈےنےہاکی والےکو روک دیا ۔ ” اس کےبعد اس نےہوشیاری کی تو میری طرف سےاس کی اور دو چار ہڈیاں توڑ دینا ۔ “ یہ کہتا ہوا وہ سب کو لےکر چل دیا ۔
وہ سناٹےمیں آگیا ۔ اس کا سارا جسم پسینےمیں شرابور ہوگیا ۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا جیسےکئی ہاکی اسٹک اس کےجسم سےٹکرائی ہیں ۔ اور اس کا جسم درد کا پھوڑا بنا ہوا ہے۔ اسےرات بھر نیند نہیں آئی ۔ آنکھوں کےسامنےغنڈوں کےچہرےگھومتےاور کانوں میں ان کی وارننگ گونجتی رہی ۔ اگر آج وہ غنڈےہاتھ اٹھادیتےتو ‘ وہ کس طرح ان سےاپنا بچاو

¿
اس کےذہن میں ایک ہی بات چکرا رہی تھی ۔ جو آج ٹل گیا ہےوہ کل بھی ہوسکتا ہے۔ اس سےبچنےکا ایک ہی طریقہ ہے۔ چپ چاپ آنکھیں بند کرکےوہ یہاں رہےاور جو کچھ ہورہا ہےاس سےلا تعلق بن جائےتو اسےکبھی کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔ لیکن وہاں رہنا بھی کسی جہنم میں رہنےسےکم نہیں تھا ۔
آئےدن غنڈوں کےجھگڑے، فساد ، شرابی ، نشہ باز ، جواری اور بدکار لوگوں کا بےدھڑک گھر میں گھس آنا یا بدتمیزی سےدروازہ پیٹنا ، پولس کےریڈ الرٹ ‘ ریٹ میں غنڈےبدمعاشوں کا تو نکل بھاگنااور شریفوں کا پکڑا جانا ۔ بات بات پر چاقو چھریوں کا چلنا ، آس پاس رہنےوالوں کی بیویوں ، ماو

¿
وہ سوچنےلگا کہ کسی کو یہ کمرہ ڈپازٹ پر دےکر اس سےاپنی رقم لےکر اس جہنم سےنکل جائے۔ لیکن پھر سوچتا کہ وہ اکیلا اس جہنم میں رہ سکتا ہےلیکن کوئی شریف بال بچےاور فیملی والےشخص کو اس جہنم میں ڈالنا کیا مناسب ہوگا ؟ اس کا ضمیر اس بات کےلئےراضی نہیں ہوپاتا تھا اور اسےاس جہنم میں رہنےکےلئےخود سےسمجھوتہ کرنا پڑا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Stories By M.Mubin Part Seven


 

افسانہ

جلاوطن

از؛۔ایم مبین

ٹرین کےاس خصوصی ڈبےمیں سو کےقریب افراد تھے۔ ان میںعورتیں بھی تھیں اور بچےبھی ‘ نوجوان بھی اور بوڑھےبھی ۔ کچھ لوگوں کا سارا خاندان اس ڈبہ میں تھا ۔ کچھ لوگوں کا خاندان تقسیم ہوگیا تھا۔
خاندان کےکچھ افراد اس ڈبےمیں مقیّد سفر کررہےتھے۔ ایک انجانی منزل کی طرف ۔ کچھ افراد بمبئی میں ہی رہ گئےتھے۔
وہ اکیلا اس ڈبےمیں تھا ۔
اس کی سکینہ اور ببلو بمبئی میں ہی رہ گئےتھے۔ پتہ نہیں اس وقت وہ کیا کررہےہوں گے؟
جب پولس اسےلےجارہی تھی تب سکینہ کتنی رو رہی تھی گڑ گڑارہی تھی ۔ ایک سال کا ببلو سکینہ کو روتا دیکھ کر بےتحاشہ رونےلگا تھا ۔ سکینہ پولس والوں کےہاتھ پیر پڑ رہی تھی رو رہی تھی ‘ رحم کی بھیک مانگ رہی تھی اور کہہ رہی تھی ۔
میرےآدمی کو چھوڑ دو ‘ میرےآدمی کو مجھ سےجدا مت کرو ۔ میں اس کےبنا نہیں رہ سکتی ۔ “ لیکن پولس نےاس کی ایک نہ سنی ۔ آخر میں وہ اس وقت اس سےملنےریلوےاسٹیشن پر آئی تھی جب اسےمعلوم ہوا تھا کہ اسےبنگلہ دیش لےجایا جا رہا ہے۔ اس وقت اسےڈبےمیں بند کردیا گیا تھا ۔
ڈبےکےدروازوں پر پانچ مسلح پولس پہرا دےرہےتھے۔ ڈبےمیں بھی سات آٹھ مسلح پولس تھی ۔ وہ کھڑکی کےپاس بیٹھا تھا ۔ اور سکینہ کھڑکی کی سلاخ پکڑ کر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی ۔
رحمن ! تم کہاں جا رہےہو ۔ مجھےچھوڑ کر کہاں جا رہےہو ‘ میں تمہارےبنا نہیں رہ سکتی مجھےچھوڑ کر مت جاو

¿ ‘ …….. ! یہ بنگلہ دیشی نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی ہےاس نےہندوستان میں جنم لیا ہے۔
اس پر ڈبےکےپاس پہرہ دیتےایک سپاہی نےاسےایک زور دار دھکا دیا تھا اور سکینہ پلیٹ فارم پر جا گری تھی ۔
اس کا خون کھول اٹھا تھا ۔
تیری تو …….. ! “ اس کی آواز اس کےحلق میں ہی گھٹ کر رہ گئی تھی ۔ کیونکہ ڈبےمیں پہرہ دینےوالےایک سپاہی کی بندوق کی نال اس کی کنپٹی سےلگی ہوئی تھی ۔ ” چپ چاپ بیٹھ جا ۔ زیادہ ہشیاری نہیں کرنےکا ‘ سالا زیادہ ہشیاری کیا تو اڑا دےگا کیا؟چیالا ! سوَتا لا دادا سمجھتوئے۔“ (خود کو دادا سمجھتا ہے) اور وہ چپ چاپ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر حسرت سےسکینہ کو دیکھنےلگا ۔ سکینہ پلیٹ فارم پر بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی ۔
پھر گاڑی نےسیٹی دی اور پلیٹ فارم پر دوڑنےلگی ۔
سکینہ چونکی اور پھر اٹھ کر گاڑی کےپیچھےدوڑی ۔
ببلو کےابا مجھےچھوڑ کر مت جاو

¿

¿
لمحہ بہ لمحہ وہ اس سےدور بہت دور ہوتی جارہی تھی ۔ گاڑی رفتار پکڑ رہی تھی اور پھر وہ اس کی نظروں سےاوجھل ہوگئی ۔ اس کا ایک انجان منزل کی طرف سفر ہوگیا ۔وہ کہاں جارہےہیں انہیں اس بات کا بھی علم نہیں تھا ۔ انہیں صرف اتنا پتہ چلا کہ انہیں اس ٹرین کےذریعہ کلکتہ لےجایا جا رہا ہے۔ کلکتہ لےجا کر انہیں کلکتہ پولس کےحوالےکر دیا جائےگا اور پولس انہیں بنگلہ دیش کی سرحد میں ڈھکیل دےگی۔
یا پھر یہ بھی ممکن تھا انہیں کلکتہ پولس کےحوالےنہ کیا جائےاور ایک خصوصی بس کےذریعہ بنگلہ دیش کی سرحد تک لےجا کر انہیں سرحد میں دھکیل دیا جائے۔ ڈبہ میں جو سپاہی تھےان کی باتوں سےپتہ چلا کہ ہوسکتا ہےکلکتہ پہونچ کر طریقہ کار بدل دیا جائے۔
ابھی تک ہم تم بنگلہ دیشی لوگوں کو کلکتہ پولس کےحوالےکردیتےتھےاور وہ آگےکا کام کرتی تھی ۔ مگر پتہ چلا ہےکہ کلکتہ پولس بھی تم لوگوں سےملی ہوئی ہےجیوتی باسو تم لوگوں کا ہمدرد ہے۔ وہ لوگ جھوٹ جھوٹ پولس کو بتاتےہیں کہ ہم بھارتی ہیں ہمیں بنگلہ زبان بولنےکی بنیاد پر بنگلہ دیشی قرار دےکر بمبئی سےنکالا گیا ہےتو وہ انہیں چھوڑ دیتی تھی ۔ اور تم لوگ واپس بھی آجاتےتھے۔ لیکن اس بار ہم تم لوگوں کو بنگلہ دیش کی سرحد میں دھکیل کر ہی واپس آئیں گےتاکہ تم لوگ پھر کبھی بمبئی واپس نہ آسکو ۔ اگر بھارت کی سرحد میں داخل ہونےکی کوشش کرو تو بی ۔ ایس ۔ ایف کی گولی کا نشانہ بن جاو

¿
اسےبنگلہ دیش بھیجا جارہا تھا ۔ ایک ایسےملک میں جسےاس نےآج تک نہیں دیکھا تھا ۔ اسےاس ملک کا باشندہ قرار دےکر وہاں بھیجا جارہا تھا ۔
کیا وہ وہاں رہ پائےگا ؟ کیا وہ ملک اسےقبول کرپائےگا ؟ جبکہ اس کا اس ملک سےکوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جب اسےاپنےہم وطن غیر ملکی قرار دےرہےہیں تو ایک غیر ملک کےلوگ اسےکیسےاپنا ہم وطن سمجھ سکتےہیں ۔
اس کا قصور کیا ہے؟
اس کا قصور یہ ہےکہ اس کی مادری زبان بنگلہ ہے۔
اس کا قصور یہ ہےکہ وہ مسلمان ہے۔
اس کا قصور یہ ہےکہ وہ مغربی بنگال میں پیدا ہوا پلا بڑھا ہے۔
اس کا قصور یہ ہےکہ وہ اپنےآپ کو ہندوستانی ثابت نہیں کر پایا ہے۔ اس کی بدقسمتی یہ ہےکہ اس نےاپنےہندوستانی ہونےکےجتنےثبوت دئےانہیں قبول نہیں کیا گیا ۔
وہ ایک ایسی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا جو اس کی اپنی نہیں تھی ۔ اس کےبارےمیں اسےکچھ بھی نہیں معلوم تھا ۔ اس منزل کےبارےمیں تو اس نےخواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ اس منزل اور اس منزل کےبعد کےمستقبل سےوہ بالکل انجان تھا ۔
وہ صرف اپنےماضی کو جانتا تھا ۔
اور اس کی نظروں کےسامنےاپنےماضی کا ایک ایک لمحہ گھوم رہا تھا ۔
دیناج پور سےبمبئی کےچیتا کیمپ تک زندگی کا ایک ایک لمحہ اسےیاد آرہا تھا ۔اس نےہوش سنبھالا تو خود کو مغربی بنگال کےچوبیس پرگنہ کےایک چھوٹےسےگاو

¿
اس نےصرف اپنی ماں کو دیکھا تھا ۔ اس کی ماں کھیتوں میں کام کرتی تھی اور اس سےجو حاصل ہوتا تھا اس سےاپنا اور اس کا پیٹ پالتی تھی ۔
گاو

¿رہتےتھے۔ اس کی ماں کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنےاور ان کےاچھےدن آئیں اس لئےوہ اسےباقاعدگی سےاسکول بھیجتی تھی ۔
وہ اسکول جاتا تھا ۔ پڑھنےلکھنےمیں بہت ہوشیار تھا اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ خوب پڑھے اور پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔
گاو

¿کا امتحان پاس کرلےگا تو وہ اسےپڑھنےکےلئےشہر بھیجےگی ۔
لیکن اس کی ماں کا خواب پورا نہیں ہوسکا اور اس کی بدقسمتی کا آغاز ہوگیا ۔ ایک دن اس کی ماں کو سخت بخار آیا ۔ دو دن تک اس کی ماں بخار سےلڑتی رہی اور تیسرےدن اس نےدم توڑ دیا اور وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا ۔
اس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا ۔ اس کا دنیا میں کوئی نہیں تھا ۔ جب سےاس نےہوش سنبھالا تھا اسےباپ کی صورت دکھائی نہیں دی تھی ۔ اس نےگاو

¿

¿

¿

¿بیاہ کیا ہے۔
پھر وہ پیدا ہوا اور جب تین سال کا ہوا تو اس کےباپ کا انتقال ہوگیا اور اب ماں کا ۔ اس طرح وہ اپنےکسی رشتہ دار کےبارےمیں کچھ نہیں جانتا تھا ۔
وہ دنیامیں اکیلا رہ گیا تھا ۔ اب اسےاپنی زندگی اکیلےہی خود ہی کاٹنی تھی ۔ زندہ رہنےکےلئےروٹی بہت ضروری تھی اور روٹی حاصل کرنےکےلئےکام کرنا بہت ضروری تھا ۔ اس لئےوہ کام کرنےلگا اور کام کرنےکےلئےاسےاسکول کی پڑھائی چھوڑنی پڑی ۔ وہ ماں کی طرح کھیتوں میں کام کرکےاپنا گذر بسر کرتا تھا لیکن کھیتوں کا کام سال بھر کہاں چلتا ہے۔
چھ مہینےکام ہےتو چھ مہینےنہیں ۔
چھ مہینےجب کام نہیںملتا تو بھوکوں مرنےکی نوبت آجاتی ۔ اس لئےجھنجلا کر اس نےسوچا کہ کوئی دوسرا کام کرنا چاہیئے۔ دوسرا کام گاو

¿
وہ کوئی دوسرا کام تو جانتا نہیں تھا اس لئےوہ کام سیکھنےلگا ۔
اسےایک موٹر گیریج میں کام مل گیا ۔
وہ گیریج میں کام سیکھتا بھی تھا کام کرتا بھی تھا ۔
اسےگیریج کا مالک دو وقت کا کھانا دیتا تھا اور خرچ کےلئےتھوڑےپیسےبھی ۔ سونےکےلئےگیریج اتنا بڑا تھا کہ کسی بھی کونےمیں اپنا بستر بچھا کر سوجاتا تھا ۔
چار پانچ سالوں میں وہ بہت اچھا مکینک بن گیا ۔
ایک دن اس کا گیریج کےمالک سےجھگڑا ہوگیا ۔ گیریج کا مالک اس کی تنخواہ نہیں بڑھا رہا تھا اس لئےوہ اس سےالجھ گیا تھا ۔
جھگڑےکےبعد اس نےوہ گیریج چھوڑ دیا اور کلکتہ چلا آیا ۔
کلکتہ میں اس کی جان پہچان کا کوئی نہیں تھا ۔ اس لئےدو چار دن یوں ہی اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا
پھر آخر اسےایک گیریج میں کام مل گیا ۔
کلکتہ میں اس نےدو تین سال نکالے۔ اس نےسنا تھا کہ بمبئی میں بہت کام ہےاور بہت پیسہ بھی ہے۔ اچھےکاریگروں کی وہاں بہت قدر ہےاور اچھا پیسہ بھی مل سکتا ہے۔
اس لئےاس نےبمبئی جانےکی ٹھانی ۔
اس کےایک دو دوست اور بمبئی جارہےتھے۔
وہ ان کےساتھ بمبئی چلا آیا ۔
بمبئی کلکتہ جیسا ہی بڑا شہر تھا لیکن کلکتہ سےزیادہ گنجان ۔ اسےبمبئی میں بھی آسانی سےکام مل گیا ۔ کیونکہ وہ اس درمیان بہت اچھا مکینک بن گیا تھا ۔

وہ گیریج میں رہنےلگا اور پیسےبھی جمع کرنےلگا ۔ اس کےپاس کچھ سالوں میں اچھےخاصےپیسےجمع ہوگئے۔ اس نےان پیسوں سےچیتا کیمپ میں ایک جھونپڑا لےلیا ۔
وہ جھونپڑا کس کی ملکیت ہےقانونی ہےیا غیر قانونی ہےاس نےاس کےبارےمیں نہیں سوچا تھا ۔ وہ تو صرف اتنا جانتا تھا کہ جو شخص اس جھونپڑےمیں اب تک رہتا ہےوہ اسےفروخت کررہا تھا اس اس لئےاس نےاسےخرید لیا ۔ جھونپڑا خریدنےکےبعد دل میں ایک ہی خواہش ہوتی ۔
اب شادی کرلینی چاہیئے۔ کیونکہ اب تو گھر ہوگیا ہے۔ بمبئی میں شادی آسانی سےہوجاتی ہےمگر گھر آسانی سےنہیں ملتا لیکن اس کےپاس تواب گھر تھا ۔
اور پھر اس کی سکینہ سےشادی ہوگئی ۔
سکینہ کا باپ بھی اس کی طرح کسی گیریج میں کام کرتا تھا ۔ اس کےایک دوست نے سکینہ کےباپ سےاس کےرشتےکی بات کی سکینہ کےباپ نےدیکھا کہ لڑکا اچھا ہے‘ کماتا ہے۔ رہنےکےلئےگھر بھی ہے۔ ایسےلڑکےآج کل اتنی آسانی سےکہاں ملتےہیں ۔
اس نےجھٹ ہاں کردی اور ان کی شادی ہوگئی ۔
کچھ دنوں میں ہی سکینہ اس کےدل میں اتر گئی ۔
سکینہ بس ہنستی رہتی تھی اور اسےسکینہ کا ہنسنا بہت پسند تھا ۔
اور سکینہ تو اس کی ہر بات پر ہنستی رہتی تھی ۔
سکینہ خاص طور پر اس کی زبان پر بہت ہنستی تھی ۔
سکینہ ناسک کی رہنےوالی تھی اور ساتویں تک پڑھی بھی تھی ۔ اس لئےاس کی اردو بہت اچھی تھی اور اردو کےاخبارات و رسائل پڑھ بھی لیتی تھی ۔
اس کو اردو بالکل نہیں آتی تھی ۔
بمبئی میں آنےکےبعد اس نےٹوٹی پھوٹی اردو بولنا سیکھی تھی۔
وہ جب تک کلکتہ میں تھا اسےاردو کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ اس کی ماں بنگلہ بولتی تھی ۔ اس کےلئےاس کی مادری زبان بنگلہ ہوگئی تھی ۔
اسکول میں بھی وہ بنگلہ ہی پڑھا ۔
کلکتہ میں جہاں اس نےکام کیا یا اس سےپہلےجہاں جہاں کام کیا اس کےسارےساتھی بنگلہ بھاشی ہی تھے۔
اسےبنگلہ زبان سےبہت محبت تھی ۔
بنگلہ پڑھنا وہ جانتا تھا اس لئےفرصت ملنےپر اکثر بنگلہ اخبارات اور رسالےپڑھا کرتا تھا ۔
اس کو ٹیگور اور قاضی نذرالسلام کےکئی گیت یاد تھے۔
اس نےشرت چندر چٹرجی کےکئی ناول پڑھےتھےاور مہا شویتا دیوی ورما سےسنیل گنگوپادھیائےکی کتابیں پڑھ چکا تھا ۔
لیکن بمبئی میں آنےکےبعد ماحول بدل گیا تھا ۔
جہاں اسےکام ملا تھا وہاں کوئی بھی بنگلہ نہیں جانتا تھا اس لئےٹوٹی پھوٹی ہندوستانی سیکھنےلگا اور کام چلاو

¿
سکینہ سےبات کرنےمیں کبھی کبھی بڑا مسئلہ کھڑا ہوجاتا تھا ۔
سکینہ کبھی کبھی اردو کا ایسا لفظ بول دیتی تھی کہ وہ اس لفظ کا مطلب ہی نہیں سمجھ پاتا تھا ۔ یا سکینہ سےبات کرتےکرتےاس کےمنہ سےکوئی ایسا بنگلہ لفظ نکل جاتا تھا کہ اس لفظ کا مطلب اسےسکینہ کو سمجھانا دشوار ہوجاتا تھا ۔
سکینہ اکثر اس سےکہتی تھی ۔
رحمن یہ بنگلہ چھوڑو اور تم اردو پڑھنا لکھنا سیکھ جاو

¿
کیوں بنگلہ میں کیا برائی ہے۔
اردو ہماری زبان ہےمسلمانوں کی زبان اسلام کا سارا مذہبی سرمایہ اس زبان میں ہے۔
مسلمان بنگلہ بھی تو بولتےہیں ۔ مغربی بنگال کےزیادہ تر مسلمانوں کی مادری زبان بنگلہ ہےاور سارےبنگلہ دیش کےمسلمانوں کی زبان تو بنگلہ ہی ہے۔
اسےبنگلہ سےپیار تھا ۔
اسےبمبئی میں بنگلہ رسالےاور اخبارات نہیں ملتےتھے۔ کبھی کبھی وہ صرف بنگلہ اخبار آنند بازار پتر یکا اور رسالہ دیش خریدنےوی ٹی آتا تھا ۔ کیونکہ وہاں ملتےتھی۔
چیتا کیمپ میں بہت سےبنگالی تھے۔ ان میں سےکوئی اپنےگھر جاتا تو اس سےوہ کہتا کہ واپسی میں میرےلئےبنگلہ اخبارات اور کتابیں لانا نہیں بھولنا ۔
وقت گزرتا گیا اس درمیان ببلو ان کےدرمیان آگیا ۔ ببلو کےآجانےسےان کی محبت اور زیادہ بڑھ گئی ۔ اچانک ایک دن اسےاور سکینہ کو ایک نوٹس ملی ۔
تم ہندوستانی ہو اس بات کا ثبوت پیش کرو ورنہ ووٹنگ لسٹ سےتمہارا نام خارج کردیا جائےگا ۔ “ اس طرح کی نوٹس اس کےعلاقہ کےاور بھی کئی لوگوں کو ملی تھی ۔ ہر کوئی اس نوٹس کی وجہ سےپریشان اور غصےمیں تھا ۔
ہمارےپاس راشن کارڈ ہے۔ ہمارا نام ووٹنگ لسٹ میں شامل ہےپھر بھی ہم سےشہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے؟ ہم یہاں پیدا ہوئے‘ پلےبڑھےہیں۔ اس سےبڑھ کر ہماری شہریت کا اور کیاثبوت ہوسکتا ہے؟
نوٹس دیکھ کر سکینہ ڈر گئی تھی ۔
رحمن تمہاری مادری زبان بنگلہ ہےاور آج کل بنگلہ دیشیوں کی بمبئی میں موجودگی پر بہت شور شرابا مچا ہوا ہے۔ تم کو بھی نوٹس مل گئی ہےاگر تم نےخود کو ہندوستانی ثابت نہیں کیا تو مجھےڈر ہےکہ کہیں تمہیں بنگلہ دیشی قرار دےکر ہندوستان سےنہ نکال دیا جائے۔
کون مجھےہندوستان سےباہر نکال سکتا ہےمیں ہندوستان میں پیدا ہوا ہوں پلا بڑھا ہوں۔
پھر اپنےہندوستانی ہونےکا ثبوت دےدوناں ! “
میرےہندوستانی ہونےکا ثبوت میری اسکول کا داخلہ ہےجس پر میری جائےپیدائش ہےاور وہ داخلہ حاصل کرنےکےلئےمجھےدیناج پور جانا پڑےگا ۔ کون اتنی جھنجھٹ کرےگا ۔ وہ لوگ میرا نام صرف ووٹنگ لسٹ سےہی کاٹیں گےناں ؟ بلا سےکاٹ دیں ؟
سکینہ نےاپنا اسکول کا داخلہ پیش کرکےخود کو ہندوستانی ثابت کردیا ۔ لیکن رحمن خود کو ہندوستانی ثابت نہیں کرسکا ۔ اس کا نام ووٹنگ لسٹ سےکاٹ دیا گیا ۔ اس نےاس کی پرواہ نہیں کی ۔ الیکشن ہوئے۔ الیکشن میں رحمن ووٹ نہیں دےسکا ۔ اسےاس کا دکھ بھی نہیں تھا ۔
نئی حکومت تھی اور نئی حکومت نےسب سےپہلا لفڑہ بنگلہ دیشیوں اور غیر ملکیوں کو پندرہ دن کےاندر ہندوستان سےباہر کرنےکا لگایا ۔ اور اس پر عمل درآمد شروع ہوگیا ۔ ایک رات پولس آئی اور اسےاٹھا کر لےگئی ۔ اس پر الزام تھا کہ وہ بنگلہ دیشی ہےاور غیر قانونی طریقےسےہندوستان میں اور بمبئی میں آیا ہے۔ وہ چیختا رہا چلاتا رہا ۔ وہ ہندوستانی ہےلیکن کسی نےنہیں سنی ۔
تُو ہندوستانی کیسا رے۔ تُو بنگالی بولتا ہے۔ تیرےگھر سےبنگالی کتابیں اور اخبارات ملےہیں نوٹس ملنےپر تُونےخود کو ہندوستانی ثابت نہیںکیا ۔ اس سےصاف ظاہر ہوتا ہےکہ تُو بنگلہ دیشی ہےاس لئےاب تجھےتیرےوطن بنگلہ دیش پہونچانےکا کام ہمیں کرنا ہے۔
سکینہ بھی بہت گڑگڑائی کہ اس کا شوہر ہندوستانی ہےلیکن پولس نہ مانی ۔ سکینہ نےاپنی ساری جمع پونجی ان کےسامنےرکھ دی کہ وہ اسےلےلیں اور رحمن کو چھوڑ دیں۔ اسےپتہ چلا تھا کہ پیسوں کےزور پر پولس نےبہت سےلوگوں کو چھوڑ دیا ہی۔
ان لوگوں کو چھوڑا ہےجن کو چھوڑنےکےلئےسیاسی رسوخ آیا تھا ۔ ٹھیک ہےہم تیرےآدمی کو چھوڑ دیتےہیں تُو بھی کسی سیاسی آدمی کا وسیلہ لا ۔ اگر تُو یہ نہیں کرسکی تو ہم یہ پیسہ لےکر بھی تیرےآدمی کو نہیں چھوڑتےکیونکہ ہمیں اوپر سےجو آرڈر ملا ہےاس آرڈر کےمطابق کچھ لوگوں کو بنگلہ دیش میں بھیجنا ہی پڑےگا ۔ “ سکینہ کسی کا وسیلہ نہیں لگا سکی ۔ اور رحمن کو بنگلہ دیشی قرار دےکر بنگلہ دیش بھیجنےکےلئےٹرین میں سوار کردیا گیا ۔
اب وہ اپنےہی ملک سےغیر ملکی بن کر ایک غیر ملک میں جارہا تھا ۔
اس کی جلاوطنی کا سفر شروع ہوا تھا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Sherni By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Rehai, Short Story, Urdu

افسانہ

شیرنی

از:۔ ایم مبین


جب وہ گھر سےنکلی تو نو بج رہےتھے۔ تیز لوکل تو ملنےسےرہی دھیمی لوکل سےہی جانا پڑےگا ۔ وہ بھی وقت پر مل گئی تو ٹھیک ۔ ورنہ یہ تو طےہےکہ آج پھر تاخیر سےآفس پہنچےگی ۔ اور لیٹ آفس آنےکا مطلب ؟ اس خیال کےساتھ ہی اس کی پیشانی پر بل پڑ گئےاور بھویں تن گئیں ۔ آنکھوں کےسامنےباس کا چہرہ گھوم گیا ۔ اور کانوں میں اس کی گرجدار آواز سنائی دی ۔
مسز مہاترے! آپ آج پھر لیٹ آئیں ہیں ۔ میرےباربار تاکید کرنےپربھی آپ روز لیٹ آتی ہیں ۔ آپ کی اس ڈھٹائی پر مجھےغصہ آتا ہے۔ آپ کو شرم آنی چاہیئے۔ بار بار تاکید کرنےپر بھی آپ وہی حرکت کرتی ہیں ۔ آج کےبعد میں آپ سےکوئی رعایت نہیں کروں گا ۔
کوئی اس سےبڑی تیزی سےٹکرایا تھا اور اس کےخیالوں کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا ۔ وہ سڑک پر تھی ۔ بھیڑ اور ٹریفک سےبھری سڑک اسےپار کرنی تھی ۔ اس لئےاپنےہوش و حواس میں رہنا بہت ضروری تھا ۔ غائب دماغ رہتےہوئےسڑک پار کرنےکی کوشش میں کوئی بھی حادثہ ہوسکتا تھا ۔ جو اس سےٹکرایا تھا وہ تو کہیں دور چلا گیا تھا لیکن اس کےٹکرانےسےاس پر غصہ نہیں آیا تھا ۔
اچھا ہوا وہ اس سےٹکرا گئی ۔ اس کےخیالوں کا سلسلہ تو ٹوٹ گیا اور وہ ہوش کی دنیا میں واپس آگئی ۔ ورنہ تناو

¿ کرنےکی کوشش میں کسی حادثہ کا شکار ہوجاتی ۔ اس نےچاروں طرف چوکنا ہوکر دیکھا ۔ سڑک کےدونوں طرف کی گاڑیاں اتنی دور تھیں کہ وہ آسانی سےدوڑ کر سڑک پار کرسکتی تھی ۔
سگنل تک رکنےکا مطلب تھا خود کو اور دوچار منٹ لیٹ کرنا ۔ اس خیال کےآتےہی اس نےسڑک پار کرنےکا فیصلہ کرلیا اور دوڑتی ہوئی سڑک کی دوسری طرف پہنچ گئی ۔ دونوں طرف سےآنےوالی گاڑیاں اس کےکافی قریب ہوگئی تھیں ۔ ذرا سی تاخیر یا سستی کسی حادثہ کا باعث بن سکتی تھی ۔ لیکن اس نےاپنےآپ کو پوری طرح اس کےلئےتیار کرلیا تھا ۔ کوئی حادثہ نہ ہو اس بات کا پورا خیال رکھا تھا ۔ سڑک پار کرکےوہ اس تنگ سی گلی میں داخل ہوئی ۔ جس کو پار کرنےکےبعد ریلوےاسٹیشن کی حد شروع ہوتی تھی ۔ گلی میں قدم رکھتےہی اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ سانس پھولنےلگی اور ماتھےپہ پسینےکی بوندیں ابھر آئیں اس نےہاتھ میں پکڑےرومال سےپیشانی پر آئی پسینےکی بوندیں صاف کیں اور پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی۔ لیکن اسےعلم تھا نہ پھولی ہوئی سانسوں پر وہ قابو پاسکےگی اور نہ ہی دل کےدھڑکنےکی رفتار معمول پر آئےگی ۔
ذہن میں کھوٹا کا خیال جو آگیا تھا ۔ اسےپورا یقین تھا ۔ گلی کےدرمیان میں اس پان کی دکان کےپاس کھوٹا کرسی لگا کر بیٹھا ہوگا ۔ اسےآتا دیکھ کر بھدےانداز میں مسکرائےگا اور اس پر کوئی گندہ فقرہ کسےگا ۔ کھوٹا کا یہ روز کا معمول تھا ۔ صبح شام اس جگہ وہ اس کا انتظار کرتا تھا ۔ اسےپتہ تھا سویرےوہ کب آفس جاتی ہےاور شام کو اب واپس آفس سےگھر جاتی ہے۔ اس کےآنےجانےکا راستہ وہی ہے۔ ریلوےاسٹیشن جانےکا اور ریلوےاسٹیشن سےگھر جانےکا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ایک ہےبھی تو وہ اتنی دور کا راستہ ہےکہ اس راستےسےجانےکا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس لئےکھوٹا اسی راستےپر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہتا تھا اور اسےدیکھتےہی کوئی بھدا سا فقرہ ہوا میں اچھالتا تھا ۔
ہائےڈارلنگ ! بہت اچھی لگ رہی ہو ۔ یہ آفس ‘ نوکری وکری چھوڑو ۔ مجھےخوش کردیا کرو ۔ ہر مہینہ اتنےپیسےدےدیا کروں گا جو نوکری سےتین چار مہینےمیں بھی نہیں ملتےہوں گے۔ آو

¿ سےاپنا کمرہ بک ہے۔ نوکری کرتےہوئےزندگی بھر شیریٹن ہوٹل کا دروازہ بھی نہیں دیکھ سکوگی ۔ آج ہماری بدولت اس میں دن گزار کر دیکھو ۔
کھوٹا کےہر فقرےکےساتھ اسےایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک نیزہ آکر اس کےدل میں چبھ گیا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتیں تھیں اور آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھانےلگتا تھا ۔ تیز چلنےکی کوشش میں قدم لڑکھڑانےلگتےتھے۔ لیکن وہ جان توڑ کوشش کرکےتیز قدموں سےکھوٹا کی نظروں سےدور ہوجانےکی کوشش کرتی تھی ۔
کھوٹا اس علاقےکا مانا ہوا غنڈہ تھا ۔ اس علاقےکا بچہ بچہ اس سےواقف تھا ۔ شراب ‘ جوئے‘ عصمت فروشی کےاڈےچلانا ‘ ہفتہ وصولی ‘ سپاری وصولی ‘ اغوا ‘ قتل اور مار پیٹ وغیرہ ۔ غرض کہ ایسا کوئی کام نہیں تھا جو وہ نہیں کرتا تھا یا اس طرح کےمعاملوں میں ملوث نہیں تھا ۔ وہ جو چاہتا کر گزرتا تھا کبھی پولس کی گرفت میں نہیں آتا تھا ۔ اگر کسی معاملےمیں پھنس بھی گیا تو اس کےاثر و رسوخ کی وجہ سےپولس کو اسےدو دنوں میں چھوڑنا پڑتا تھا ۔
اس کھوٹا کا دل اس پر آگیا تھا ۔ اس پر اس مایا مہاترےپر ایک معمولی ایک چھوٹی سی پرائیویٹ آفس میں کام کرنےوالی ایک بچےکی ماں پر پہلےتو کھوٹا اسےصرف گھورا کرتا تھا ۔ پھر جب اسےاس کےآنےجانےکا وقت اور راستہ معلوم ہوگیا تو وہ روزانہ اس راستےپر اس سےملنےلگا ۔
روزانہ اسےدیکھ کر مسکراتا اور اس پرگندےگندےفقروںکی بارش کرنےلگتا ۔ کھوٹا کی ان حرکتوں سےوہ دہشت زدہ سی ہوگئی تھی ۔ اسےیہ اندازہ تو ہوگیا تھا کہ کھوٹا کےدل میں کیا ہے۔ اور اسےیہ پورا یقین تھا کہ جو اس کےدل میں ہےکھوٹا ایک دن اسےپورا کرکےہی رہےگا ۔ اس تصور سےہی وہ کانپ اٹھتی تھی ۔ اگر کھوٹا نےاپنےدل کی مراد پوری کرڈالی یا پوری کرنےکی کوشش کی تو ؟ اس تصور سےہی اس کی جان نکل جاتی تھی ۔
نہیں ! نہیں ! ایسا نہیں ہوسکتا ۔ اگر کھوٹا نےمیرےساتھ ایسا کچھ کردیا تو میں کسی کو منہ دکھانےکےقابل نہیں رہوں گی ۔ میں زندہ نہیں رہ پاو

¿بہک سکتےہیں ۔ دوسرےہزاروں لوگ اسےدیکھ کر ایسا کوئی خیال دل میں لاتےبھی تو اسےکوئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ اسےپورا یقین تھا کہ وہ کبھی اس خیال کو پورا کرنےکی جرا

¿
لیکن کھوٹا ؟ ہےبھگوان ! وہ جو سوچ لےدنیا کی کوئی بھی طاقت اسےاس کےسوچےکام کو روکنےکی کوشش نہیں کرسکتی تھی ۔ اور وہ آتےجاتےکھوٹا کی دہشت کا شکار ہوتی تھی ۔ اور اس دن تو کھوٹا نےحد کردی ۔ نا صرف راستہ روک کر کھڑا ہوگیا بلکہ اس کی کلائی بھی پکڑ لی ۔
بہت زیادہ اکڑتی ہو ۔ اپنےآپ کو کیا سمجھتی ہو ۔ تمہیں معلوم نہیں کھوٹا سےتمہارا پالا پڑا ہے۔ ایسی اکڑ نکالوں گا کہ زندگی بھر یاد رکھوگی ۔ ساری اکڑ نکل جائےگی ۔
چھوڑ دو مجھے۔ “ اس کی آنکھوں میں خوف سےآنسو آگئے۔ اور وہ کھوٹا کےہاتھوں سےاپنی کلائی چھڑانےکی کوشش کرنےلگی ۔ لیکن وہ کسی شیر کےچنگل میں پھنسی ہرنی سی اپنےآپ کو محسوس کررہی تھی ۔ کھوٹا بھیانک انداز میں ہنس رہا تھا اور وہ اس کےہاتھوں سےاپنی کلائی چھڑانےکی کوشش کرتی رہی ۔ اس منظر کو دیکھ کر ایک دو راستہ چلنےوالےرک بھی گئے۔ لیکن کھوٹا پر نظر پڑتےہی وہ تیزی سےآگےبڑھ گئے۔ شیطانی ہنسی ہنستا ہوا کھوٹا اس کی بےچینی سےمحظوظ ہورہا تھا ۔ پھر ہنستےہوئےاس نےدھیرےسےاس کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔ وہ روتی ہوئی آگےبڑھ گئی ۔ کھوٹاکا شیطانی قہقہہ اس کا تعاقب کرتا رہا ۔ وہ روتی ہوئی اسٹیشن آئی اور لوکل میں بیٹھ کر سسکتی رہی ۔ اسےروتا دیکھ کر آس پاس کےمسافر اسےحیرت سےدیکھ رہےتھے۔
آفس پہونچنےتک رو رو کر اس کی آنکھیں سوج گئی تھیں ۔ اس میں آئی تبدیلی آفس والوں سےچھپی نہ رہ سکی ۔ اسےآفس کی سہیلیوں نےگھیر لیا ۔
کیا بات ہےمایا ‘ یہ تمہارا چہرہ کیوں سوجا ہوا ہےاور آنکھیں کیوں لال ہیں ؟ “ اس نےکوئی جواب نہیں دیا اور ان سےلپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونےلگی ۔ وہ سب بھی گھبرا گئیں اور اسےتسلی دیتےہوئےچپ کرانےکی کوشش کرنےلگیں ۔ بڑی مشکل سےاس کےآنسو رکےاور اس نےپوری کہانی انہیں سنا دی ۔ اس سےقبل بھی وہ کئی بار کھوٹا کی ان حرکتوں کی بارےمیں انہیں بتا چکی تھی لیکن انہوں نےکوئی دھیان نہیں دیا تھا ۔
نوکری پیشہ عورتوں کےساتھ تو یہ سب ہوتا ہی رہتا ہے۔ میرا خود ایک عاشق ہےجو اندھیری سےچرنی روڈ تک میرا پیچھا کرتا ہے۔
میرےبھی ایک عاشق صاحب ہیں ۔ سویرےشام میرےمحلےکےنکڑ پر میرا انتظار کرتےرہتےہیں ۔
اور میرےعاشق صاحب تو آفس کےگرد منڈلاتےرہتےہیں ۔ آو

¿
اگر کھوٹا تم پر عاشق ہوگیا ہےتو یہ کوئی تشویش کی بات نہیں ہے۔ تم چیزہی ایسی ہو کہ تمہارےتو سو دو سو عاشق ہوسکتےہیں ۔ “ ان کی باتیں سن کر وہ جھنجھلا جاتی ۔
تم لوگوں کو مذاق سوجھا ہےاور میری جان پر بنی ہے۔ کھوٹا ایک غنڈہ ہے‘ بدمعاش ہے۔ وہ ایسا سب کچھ کرسکتا ہےجس کا تصور بھی تمہارےعاشق نہیں کرسکتے۔ لیکن اس دن کی کھوٹا کی یہ حرکت سن کر سب سناٹےمیں آگئیں تھیں ۔
کیا تم نےاس بارےمیں اپنےشوہر کو بتایا ؟
نہیں ! آج تک کچھ نہیں بتایا ۔ سوچتی تھی کوئی ہنگامہ نہ کھڑا ہوجائے۔
تو اب پہلی فرصت میں اسےسب کچھ بتا دو ۔
اس شام وہ معمول کےراستےسےنہیں لمبےراستےسےگھر گئی ۔ اور ونود کو سب کچھ بتادیا کہ کھوٹا اتنےدنوں سےاس کےساتھ کیا کررہا تھا اور آج اس نےکیا حرکت کی ۔ اس کی باتیں سن کر ونود کا چہرہ تن گیا ۔
ٹھیک ہے! فی الحال تو تم ایک دو دن آفس جانا ہی نہیں ۔ اس کےبعد سوچیں گےکہ کیا کرنا ہے۔ اس کےبعد وہ تین دن آفس نہیں گئی ۔ ایک دن وہ بالکنی میں کھڑی تھی ۔ اچانک اس کی نیچےنظر گئی اور اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کھوٹا نیچےکھڑا اس کی بالکنی کو گھور رہا تھا ۔ اس سےنظر ملتےہی وہ شیطانی انداز میں مسکرانےلگا ۔ وہ تیزی سےاندر آگئی ۔
رات ونود گھر آیا تو اس نےآج کا واقعہ بتایا ۔ اس واقعہ کو سن کر اس نےاپنےہونٹ بھینچ لئے۔ دوسرےدن آفس جانا بہت ضروری تھا ۔ اتنےدنوں تک وہ اطلاع دئےبنا آفس سےغائب نہیں رہ سکتی تھی ۔
آج میں تم کو اسٹیشن تک چھوڑنےآو

¿چھوڑنےآیا ۔ جب وہ گلی سےگذرےتو پان اسٹال کےپاس کھوٹا موجود تھا ۔
کیوں جانِ من ! آج باڈی گارڈ ساتھ لائی ہو ۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہےکہ اس طرح کےسو باڈی گارڈ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ “ پیچھےسےآواز آئی تو اس آواز کو سن کر جوش میں ونود مڑا لیکن اس نےاسےتھام لیا ۔
نہیں ونود ! یہ غنڈوں سےالجھنےکا وقت نہیں ہے۔ “ اور وہ اسےتقریباً کھینچتی ہوئی اسٹیشن کی طرف بڑھ گئی ۔ اس شام واپسی کےلئےاس نےلمبا راستہ اپنایا ۔ لیکن اس کالونی کےگیٹ کےپاس پہونچتےہی اس کا دل دھک

سےرہ گیا ۔
کھوٹا گیٹ پر اس کا منتظر تھا ۔
مجھےاندازہ تھا کہ تم واپس اس راستےسےنہیں آو

¿مجھ سےفرار حاصل کرسکو ۔ “ یہ کہتےہوئےوہ اسےسلام کرتا ہوا آگےبڑھ گیا ۔ رات ونود کو اس نےساری کہانی سنائی تو ونود بولا ۔ ” کل اگر کھوٹا نےتمہیں چھیڑا تو ہم اس کےخلاف پولس میں شکایت کریں گے۔
دوسرےدن ونود اسےچھوڑنےکےلئےآیا تو کھوٹا سےپھر آمنا سامنا ہوگیا ۔ کھوٹا کی گندی باتیں ونود برداشت نہ کرسکا اور اس سےالجھ گیا ۔ ونود نےایک مکہ کھوٹا کو مارا ۔ جواب میں کھوٹا نےونود کےمنہ پر ایسا وار کیا کہ اس کےمنہ سےخون بہنےلگا ۔
بابو ! کھوٹا سےاچھےاچھےتیس مار خاں نہیں جیت سکےتو تمہاری بساط ہی کیا ہی؟ “زخمی ونود نےآفس جانےکےبجائےپولس اسٹیشن جاکر کھوٹا کےخلاف شکایت کرنا ضروری سمجھا ۔ تھانہ انچارج نےساری باتیں سن کر کہا ۔ ” ٹھیک ہےہم آپ کی شکایت لکھ لیتےہیں ۔ لیکن ہم کھوٹا کےخلاف نہ تو کوئی سخت کاروائی کرپائیں گےنہ کوئی مضبوط کیس بنا پائیں گے۔ کیونکہ کچھ گھنٹوں میں کھوٹا چھوٹ جائےگا اور ممکن ہےچھوٹنےکےبعد کھوٹا تم سےاس بات کا انتقام بھی لے۔ ویسےآپ ڈریئےنہیں ہم کھوٹا کو اس کی سزا ضرور دیں گے۔
پولس اسٹیشن سےبھی انہیں مایوسی ہی ملی ۔ اس دن دونوں آفس نہیں گئے۔ تناو

¿ نےپولس اسٹیشن فون لگا کر اپنی شکایت پر کی جانےوالی کاروائی کےبارےمیں پوچھا ۔
مسٹر ونود ! “ تھانہ انچارج نےکہا ۔ آپ کی شکایت پر ہم نےکھوٹا کو پولس اسٹیشن بلا کر تاکید کی ہے۔ اگر اس نےدوبارہ آپ کی بیوی کو چھیڑا یا آپ سےالجھنےکی کوشش کی تو اسےاندر ڈال دیں گے۔ دوسرےدن دونوں ساتھ آفس کےلئےروانہ ہوئے۔ متعین جگہ پر پھر کھوٹا سےسامنا ہوگیا ۔
واہ بابو واہ ! تیری تو بہت پہونچ ہے۔ کھوٹا سےبھی زیادہ ؟ تیری ایک شکایت پر پولس نےکھوٹا کو بلا کر تاکید کی اور تاکید ہی کی ہےناں ؟ اب کی بار کھوٹا ایسا کچھ کرےگا کہ پولس کو تمہاری شکایت پر کھوٹا کےخلاف کاروائی کرنی ہی پڑےگی ۔
کھوٹا ! ہم شریف لوگ ہیں ہماری عزت ہمیں اپنی جان سےبھی زیادہ پیاری ہےاور اس عزت کی حفاظت کےلئےہم اپنی جان بھی دےسکتےہیں اور کسی کی جان لےبھی سکتےہیں ۔ اس لئےبہتری اسی میں ہےکہ ہم شریف لوگوں کو پریشان مت کرو ۔ تمہارےلئےاور بھی ہزاروں عورتیں دنیا میں ہیں ۔ تم قیمت ادا کرکےمن چاہی عورت کو حاصل کرسکتےہو ۔ پھر کیوں میری بیوی کےپیچھےپڑےہو ؟
مشکل یہی ہےبابو ! کھوٹا کا دل جس پر آیا ہےوہ اسےپیسوں کےبل پر نہیں مل سکتی ۔ اس کی طاقت کےبل پر ہی مل سکتی ہے۔
کمینے! میری بیوی کی طرف آنکھ بھی اٹھائی تو میں تیری جان لےلوں گا ۔ “ یہ کہتےہوئےونود کھوٹا پر ٹوٹ پڑا اور بےتحاشہ اس پر گھونسےبرسانےلگا ۔ ہکا بکا کھوٹا ونود کےوار سےخود کو بچانےکی کوشش کرنےلگا ۔ اچانک راستہ چلتےکچھ راہ گیروں نےونود کو پکڑ لیا ‘ کچھ نےکھوٹا کو ۔ اور وہ کسی طرح ونود کو آفس جانےکےبجائےگھر لےجانےمیں کامیاب ہوگئی ۔ کھوٹا سےونود کےٹکراو

¿ ضرور لےگا ۔ اور کس طرح لےگا اس تصور سےہی وہ کانپ جاتی تھی ۔ وہ ونود کو بہلاتی رہی ۔
کھوٹا کو تم نےایسا سبق سکھایا ہےکہ آج کےبعد نہ وہ تم سےالجھےگا نہ میری طرف آنکھ اٹھانےکی جرا

¿دےرہی تھی لیکن اندر ہی اندر کانپ رہی تھی کہ کھوٹا ضرور اس بات کا بدلہ لےگا ۔ اگر اس نےونود کو کچھ کیا تو ؟
نہیں ! نہیں ! ونود کو کچھ نہیں ہونا چاہئیےونود میری زندگی ہے۔ اگر اس کےجسم پر ایک خراش بھی آئی تو میں زندہ نہیں رہوں گی ۔ اسےایسا محسوس ہورہا تھا اس کی وجہ سےیہ جنگ چھیڑی ہے۔ اس جنگ کا خاتمہ دونوں فریقوں کی تباہی ہے۔ اس کےعلاوہ کچھ اور نکل بھی نہیں سکتا ۔ بہتری اسی میں ہےکہ دونوں فریقوں کےدرمیان صلح کرادی جائے۔ تاکہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے۔ لیکن یہ صلح کس طرح ممکن تھی ؟ کھوٹا انتقام کی آگ میں جھلس رہا ہوگا اور جب تک انتقام کی یہ آگ نہیں بجھےگی اسےچین نہیں آئےگا ۔ اسےکھوٹا ایک اژدھا محسوس ہورہا تھا ۔ جو اس کےسامنےکھڑا اسےنگلنےکےلئےاپنی زبان بار بار باہر نکالتا اور پھنکاررہا تھا ۔ اس اژدھےسےاسےاپنی حفاظت کرنی تھی ۔ دوسرےدن وہ آفس جانےلگی تو پان اسٹال پر کھوٹا کا سامنا ہوگیا ۔ وہ قہر آلود نظروں سےاسےگھور رہا تھا ۔ اس نےمسکرا کر اسےدیکھا اور آگےبڑھ گئی ۔ اسےمسکراتا دیکھ کھوٹا حیرت سےاسےآنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا رہ گیا ۔
ایک دن پھر وہ آفس جانےلگی تومسکراتا ہوا کھوٹا اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا ۔ اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ۔
میرا راستہ چھوڑ دو ۔ “ وہ قہر آلود نظروں سےاسےگھورتی ہوئیغصہ سے بولی ۔
جانم اب تو ہمارےتمہارےراستےایک ہی ہیں ۔ “ کہتےہوئےکھوٹا نےاس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نےایک جھٹکےسےاپنا ہاتھ چھڑالیا اور قریب کھڑےناریل پانی فروخت کرنےوالےکی گاڑی سےناریل چھیلنےکی درانتی اٹھاکر کھوٹا کی طرف شیرنی کی طرح لپکی ۔ کھوٹا کےچہرےپر ہوائیاں اڑنےلگیں ۔ اچانک وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا ۔ وہ اس کےپیچھےدرانتی لئےدوڑ رہی تھی ۔
پھولتی ہوئی سانسوں کےساتھ کھوٹا اپنی رفتار بڑھاتا جارہا تھا ۔ جب کھوٹا اس کی پہونچ سےکافی دور نکل گیا تو وہ کھڑی ہوکر اپنی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پانےکی کوشش کرنےلگی ۔ اور پھر درانتی کو ایک طرف پھینک کر آفس چل دی ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ٠ مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Rehai By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Rehai, Short Story, Urdu

افسانہ

رہائی

از:۔ایم مبین

دونوں چپ چاپ پولس اسٹیشن کےکونےمیں رکھی ایک بنچ پر بیٹھےصاحب کےآنےکا انتظار کر رہےتھے۔ انہیں وہاں بیٹھےتین گھنٹےہوگئےتھے۔ دونوں میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کریں ۔جب بھی دونوں ایک دوسرےکو دیکھتےاور دونوں کی نظریں ملتیں تو وہ ایک دوسرےکو مجرم تصور کرتے۔
دونوں میں سےقصور کس کا تھا وہ خود ابھی تک یہ طےنہیں کرپائےتھے۔ کبھی محسوس ہوتا وہ مجرم ہیں کبھی محسوس ہوتا جیسےایک کےگناہ کی پاداش میں دوسرےکو سزا مل رہی ہی۔ وقت گذاری کےلئےوہ اندر چل رہی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے۔ ان کےلئےیہ جگہ بالکل اجنبی تھی ۔ دونوں کو یاد نہیں آرہا تھا کہ کبھی انہیں کسی کام سےبھی اس جگہ یا ایسی جگہ جانا پڑا تھا ۔ یا اگر کبھی جانا پڑا ہوگا تو بھی وہ مقام ایسا نہیں تھا ۔
سامنےلاک اپ تھا ۔ پانچ چھ آہنی سلاخوں والےدروازےاور ان دروازوں کےچھوٹےچھوٹےکمرے۔ ہر کمرےمیں آٹھ دس افراد بند تھے۔ کوئی سو رہا تھا تو کوئی اونگھ رہا تھا ‘ کوئی آپس میں باتیں کررہا تھا تو کوئی سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر کبھی انہیں تو کبھی پولس اسٹیشن میں آنےجانےوالےسپاہیوں کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں مسکرا رہا تھا ۔
ان میں سےکچھ کےچہرےاتنےبھیانک اور کرخت تھےکہ انہیں دیکھتےہی اندازہ ہوجاتا تھا کہ ان کا تعلق جرائم پیشہ افراد سےہےیا وہ خود جرائم پیشہ ہیں ۔ لیکن کچھ چہرےبالکل ان سےملتےجلتےتھے۔ معصوم بھولےبھالے۔ سلاخوں کےپیچھےسےجھانک کر بار بار وہ انہیں دیکھ رہےتھے۔ جیسےان کےاندر تجسس جاگا ہے۔ ” تم لوگ شاید ہماری برادری سےتعلق رکھتےہو ۔ تم لوگ یہاں کیسےآن پھنسے؟ “وہ جب بھی ان چہروں کو دیکھتےتو دل میں ایک ہی خیال آتا کہ صورت شکل سےتو یہ بھولےبھالےمعصوم اور تعلیم یافتہ لوگ لگتےہیں یہکیسے اس جہنم میں آن پھنسے۔
باہر دروازےپر دو بندوق بردار پہرہ دےرہےتھے۔ لاک اپ کےپاس بھی دو سپاہی بندوق لئےکھڑےتھے۔ کونےوالی میز پر ایک وردی والا مسلسل کچھ لکھ رہا تھا ۔ کبھی کوئی سپاہی آکر اس کی میز کےسامنےوالی کرسی پر بیٹھ جاتا تو وہ اپنا کام چھوڑ کر اس سےباتیں کرنےلگتا ۔ پھر اس کےجانےکےبعد اپنےکام میں مشغول ہو جاتا تھا ۔
اس کےبازو میں ایک میز خالی پڑی تھی ۔ اس میز پر دونوں کےبریف کیس رکھےہوئےتھے۔ ان کےساتھ اور بھی لوگ ریلوےاسٹیشن سےپکڑ کر لائےگئےتھےان کا سامان بھی اسی میز پر رکھا ہوا تھا ۔ وہ لوگ بھی ان کےساتھ ہی بینچ پر بیٹھےتھےلیکن کسی میں اتنیہمت نہیں تھی کہ ایک دوسرےسےباتیں کرسکے۔ ایک دو بار ان میں سےکچھ لوگوں نےآپس میں باتیں کرنےکی کوشش کی تھی ۔ اسی وقت سامنےکھڑا سپاہی گرج اٹھا ۔
اےخاموش ! آواز مت نکالو ‘ شور مت کرو ۔ اگر شور کیا تو لاک اپ میں ڈال دوں گا ۔ “ اس کےبعد ان لوگوں نےسرگوشی میں بھی ایک دوسرےسےباتیں کرنےکی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ سب ایک دوسرےکےلئےاجنبی تھے۔ یا ممکن ہےایک دوسرےکےشناسا ہوں جس طرح وہ اور اشوک ایک دوسرےکےشناسا تھے۔ نا صرف شناسا بلکہ دوست تھے۔ ایک ہی آفس میں برسوں سےکام کرتےتھےاور ایک ساتھ ہی اس مصیبت میں گرفتار ہوئےتھے۔
آج جب دونوں آفس سےنکلےتھےتو دونوں نےخواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس طرح مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔
آفس سےنکلتےہوئےاشوک نےکہا تھا ۔ ” میرےساتھ ذرا مارکیٹ چلوگی؟ ایک چھری کا سیٹ خریدنا ہے۔ بیوی کئی دنوں سےکہہ رہی ہےلیکن مصروفیات کی وجہ سےمارکیٹ تک جانا نہیں ہورہا ہے۔
چلو ! “ اس نےگھڑی دیکھتےہوئےکہا ۔ مجھےسات بجےکی تیز لوکل پکڑنی ہےاور ابھی چھ بج رہےہیں ۔ اتنی دیر میں ہم یہ کام نپٹا سکتےہیں ۔ “ وہ اشوک کےساتھ مارکیٹ چلا گیا تھا ۔
ایک دوکان سےانہوں نےچھریوں کا سیٹ خریدا تھا ۔ اس سیٹ میں مختلف سائز کی آٹھ دس چھریاں تھیں ۔ ان کی دھار بڑی تیز تھی اور دوکاندار کا دعویٰ تھا روزانہ استعمال کےبعد بھی دو سالوں تک ان کی دھار خراب نہیں ہوگی کیونکہ یہ اسٹین لیس اسٹیل کی بنی ہوئی ہیں قیمت بھی واجب تھی ۔
قیمت ادا کرکےاشوک نےسیٹ اپنی اٹیچی میں رکھا اور وہ باتیں کرتےہوئےریلوےاسٹیشن کی طرف چل دئے۔ اسٹیشن پہنچےتو سات بجنےمیں بیس منٹ باقی تھےدونوں کی مطلوبہ تیز لوکل کےآنےمیں پورےبیس منٹ باقی تھے۔
فاسٹ ٹرین کےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ نہیں تھی دھیمی گاڑیوں والےپلیٹ فارم پر زیادہ بھیڑ تھی لوگ شاید بیس منٹ تک کسی گاڑی کا انتظار کرنےکی بہ نسبت دھیمی گاڑیوں سےجانا پسند کررہےتھے۔
اچانک وہ چونک پڑے۔ پلیٹ فارم پرپولس کی پوری فورس ابھر آئی تھی ۔ اور اس نےپلیٹ فارم کےہر فرد کو اپنی جگہ ساکت کردیا تھا ۔ دو دو تین تین سپاہی آٹھ آٹھ دس دس افراد کو گھیرےمیں لےلیتےان سےپوچھ تاچھ کرکےان کےسامان اور سوٹ کیس ‘ اٹیچیوں کی تلاشی لیتےکوئی مشکوک مطلوبہ چیز نہ ملنےکی صورت میں انہیں جانےدیتےیا اگر انہیں کوئی مشکوک یا مطلوبہ چیز مل جاتی تو فوراً دو سپاہی اس شخص کو پکڑ کر پلیٹ فارم سےباہر کھڑی پولس جیپ میں بٹھا آتے۔
انہیں بھی تین سپاہیوں نےگھیر لیا تھا ۔
کیا بات ہےحولدار صاحب ؟ “ اس نےپوچھا ۔ ” یہ تلاشیاں کس لئےلی جارہی ہیں ؟
ہمیں پتہ چلا ہےکہ کچھ دہشت گرد اس وقت پلیٹ فارم سےاسلحہ لےجارہےہیں ۔ انہیں گرفتار کرنےکےلئےیہ کاروائی کی جارہی ہے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔
وہ کل آٹھ لوگ تھےجنہیں ان سپاہیوں نےگھیرےمیں لےرکھا تھا ان میں سےچار کی تلاشیاں ہوچکی تھیں اور انہیں چھوڑ دیا گیا تھا ۔ اب اشوک کی باری تھی ۔
جسمانی تلاشی لینےکےبعد اشوک کوبریف کیس کھولنےکےلئےکہا گیا ۔ کھولتےہی ایک دو چیزوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنےکےبعد جیسےہی ان کی نظریں چھریوں کےسیٹ پر پڑیں وہ اچھل پڑے۔ ” باپ رےاتنی چھریاں ؟ صاب ہتھیار ملےہیں ۔ “ ایک نےآواز دےکر تھوڑی دور کھڑےانسپکٹر کو بلایا ۔
حولدار صاحب یہ ہتھیار نہیں ہیں ۔ سبزی ترکاری کاٹنےکی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےگھبرائی ہوئی آواز میں انہیں سمجھانےکی کوشش کی ۔
ہاں حولدار صاحب ! یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہےہم نےابھی بازار سےخریدا ہے۔ “ اس نےبھی اشوک کی صفائی پیش کرنےکی کوشش کی ۔
تو تُو بھی اس کےساتھ ہے‘ تُو بھی اس کا ساتھی ہے؟“ کہتےہوئےایک سپاہی نےفوراً اسےدبوچ لیا ۔ دو سپاہی تو پہلےہی اشوک کو دبوچ چکےتھے۔ ” ہم سچ کہتےہیں حولدار صاحب ! یہ ہتھیار نہیں ہیں یہ گھریلو استعمال کی چھریوں کا سیٹ ہے۔ “ اشوک نےایک بار پھر ان لوگوں کو سمجھانےکی کوشش کی ۔
چپ بیٹھ ! “ ایک زور دار ڈنڈا اس کےسر پرپڑا ۔
حولدار صاحب ! آپ مار کیوں رہےہیں ؟ “ اشوک نےاحتجاج کیا ۔
ماریں نہیں تو کیا تیری پوجا کریں ۔ یہ ہتھیار ساتھ میں لئےپھرتا ہے۔ دنگا فساد کرنےکا ارادہ ہے۔ ضرور تیرا تعلق ان دہشت پسندوں سےہوگا ۔ “ ایک سپاہی بولا اور دو سپاہی اس پر ڈنڈےبرسانےلگے۔ اس نےاشوک کو بچانےکی کوشش کی تو اس پر بھی ڈنڈےپڑنے لگے۔ اس نےعافیت اسی میں سمجھی کہ وہ چپ رہے۔ دو چار ڈنڈےاس پر پڑنےکےبعد میں ہاتھ رک گیا ۔ لیکن اشوک کا برا حال تھا ۔ وہ جیسےہی کچھ کہنےکےلئےمنہ کھولتا اس پر ڈنڈےبرسنےلگتےاور مجبوراً اسےخاموش ہونا پڑتا ۔
کیا بات ہے؟“ اس درمیان انسپکٹر وہاں پہنچ گیا جسےانہوں نےآواز دی تھی ۔
صاب اس کےپاس ہتھیار ملےہیں ۔
اسےفوراً تھانےلےجاو

¿ اور گھسیٹتےہوئےپلیٹ فارم سےباہر لےجانےلگے۔ باہر ایک پولس جیپ کھڑی تھی۔ اس جیپ میں انہیں بٹھا دیا گیا اس جیپ میں اور دوچار آدمی بیٹھےتھے۔ ان سب کو چار سپاہیوں نےاپنی حفاظت میں لےرکھا تھا ۔ اسی وقت جیپ چل پڑی ۔
آپ لوگوں کو کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے؟ “ جیسےہی ان لوگوں میں سےایک آدمی نےان سےپوچھنےکی کوشش کی ایک سپاہی کا فولادی مکہ اس کےچہرےپر پڑا ۔
چپ چاپ بیٹھا رہ نہیں تو منہ توڑ دوں گا ۔ “ اس آدمی کےمنہ سےخون نکل آیا تھا وہ اپنا منہ پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اور منہ سےنکلتےخون کو جیب سےرومال نکال کر صاف کرنےلگا ۔
پولس اسٹیشن لاکر انہیں اس کونےکی بینچ پر بٹھا دیا گیا اور ان کا سامان اس میز پر رکھ دیا گیا جو شاید انسپکٹر کی تھی ۔ جب وہ پولس اسٹیشن پہنچےتو مسلسل لکھنےوالےنےلانےوالےسپاہیوں سےپوچھا ۔
یہ لوگ کون ہیں ؟ انہیں کہاں سےلارہےہو ؟
ریلوےاسٹیشن پر چھاپےکےدوران پکڑےگئےہیں ان کےپاس سےمشکوک چیزیں یا ہتھیار برآمد ہوئےہیں ۔
پھر انہیں یہاں کیوں بٹھا رہےہو ؟ انہیں لاک اپ میں ڈال دو ۔
صاحب نےکہا ہےکہ انہیں باہر بٹھا کررکھو وہ آکر ان کےبارےمیں فیصلہ کریں گی۔“بینچ پر بٹھانےسےپہلےان کی اچھی طرح تلاشی لی گئی تھی ۔ کوئی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی یہی غنیمت تھا ۔ ان کی پولس اسٹیشن آمد کی تھوڑی دیر بعد دوسرا جتھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔ وہ بھی آٹھ دس لوگ تھےشاید انہیں کسی دوسرےانسپکٹر نےپکڑا تھا اس لئےانہیں دوسرےکمرےمیں بٹھایا گیا۔ اور بھی اس طرح کےکتنےلوگ لائےگئےانہیں اندازہ نہیں تھا کیونکہ وہ صرف اس کمرےکی سرگرمیاں دیکھ پا رہےتھےجس میں وہ مقیّد تھے۔
نئےسپاہی آتےتو ان پر ایک اچٹتی نظر ڈال کر اپنےدوسرےساتھیوں سےپوچھ لیتے۔ ”یہ کہاں سےپکڑےگئےہیں ۔ جُوئےگھر سے‘ بلیو فلم دیکھتےہوئےیا طوائفوں کےاڈوں سے؟
ہتھیاروں کی تلاش میں ۔ آج ریلوےاسٹیشن پر چھاپا مارا تھا ۔ وہاں پر پکڑےگئےہیں ۔
کیا کچھ برآمد ہوا ؟
خاطر خواہ تو کچھ بھی برآمد نہیں ہوسکا ۔ تلاش جاری ہے۔صاب ابھی نہیں آئےہیں ۔ آئیں تو پتہ چلےگا کہ خبر صحیح تھی یا غلط اور اس چھاپےسےکچھ حاصل ہوا ہےیا نہیں ؟
جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا اس کےدل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔ اشوک کی حالت غیر تھی ۔ اس کی

چہرےپر اس کےدل کی کیفیت ابھر رہی تھی ۔ ہر لمحہ ایسا لگتا تھا جیسےوہ ابھی چکرا کر گرجائےگا ۔ اسےاندازہ تھا جن خدشات سےوہ ڈر رہا ہےاشوک کےخدشات کچھ زیادہ ہی ہوں گی۔ اسےاس بات کا اطمینان تھا تلاشی میں اس کےپاس سےکوئی بھی مشکوک چیز برآمد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئےنہ تو پولس اس پر کوئی الزام لگا سکتی ہےنہ اس پر ہاتھ ڈال سکتی ہے۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ اشوک کےساتھ گرفتار ہوا ہے۔ اشوک پر جو بھی فردِ جرم عائد کی جائےگی اس میں اسےبھی برابر کا شریک قرار دیا جائےگا ۔ کبھی کبھی اسےغصہ آجاتا ۔
آخر ہمیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟ کس جرم میں ہمارےساتھ عادی مجرموں سا ذلت آمیزسلوک کیا جا رہا ہےاور یہاں گھنٹوں سےبٹھا کر رکھا گیا ہےاور ہماری تذلیل کی جارہی ہے؟ ہمارےپاس سےتو ایسی کوئی مشکوک قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ہے۔ وہ چھریوں کا سیٹ ؟ وہ تو گھریلو استعمال کی چیزیں ہیں ۔ انہیں اپنےپاس رکھنا یا کہیں لےجانا کوئی جرم نہیں ہے۔ اشوک ان چیزوں سےکوئی قتل و غارت گری یا دنگا فساد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ تو انہیں اپنےگھر اپنےگھریلو استعمال کےلئےلےجانا چاہتا تھا ۔ “ لیکن وہ کس سےیہ باتیں کہے‘کس کےسامنےاپنی بےگناہی کی صفائی پیش کرے۔ یہاں تو آواز بھی منہ سےنکلتی ہےتو جواب میں کبھی گالیاں ملتی ہیں تو کبھی گھونسے۔ اس مصیبت سےکس طرح نجات پائیں دونوں اپنی اپنی طور پر سوچ رہےتھےجب ان سوچوں سےگھبرا جاتےتو سرگوشی میں ایک دوسرےسےایک دو باتیں کرلیتی۔
انور اب کیا ہوگا ؟
کچھ نہیں ہوگا اشوک ! تم حوصلہ رکھو ۔ ہم نےکوئی جرم نہیں کیا ہے۔
پھر ہمیں یہاں یوں کیوں بٹھاکر رکھا گیا ہے۔ ہمارےساتھ عادی مجرموں کا سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟
یہاں کےطور طریقےایسےہی ہیں ۔ ابھی ہمارا کیس کسی کےسامنےگیا بھی نہیں ہے۔
میرا سالہ مقامی ایم ۔ ایل ۔ اےکا دوست ہے۔ اسےفون کرکےتمام باتیں بتادوں گا وہ ہمیں اس جہنم سےنجات دلادےگا ۔
پہلی بات تو یہ لوگ ہمیں فون کرنےنہیں دیں گے۔ پھر تھوڑا حوصلہ رکھو انسپکٹر کےآنےکےبعد کیا صورت حال پیدا ہوتی ہےاس وقت اس بارےمیں سوچیں گے۔
اتنی دیر ہوگئی گھر نہ پہنچنےپر بیوی متفکّر ہوگی ۔
میری بھی یہی حالت ہے۔ ایک دو گھنٹےلیٹ ہوجاتا ہوں تو وہ گھبرا جاتی ہی۔ان لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں کچھ نہ ملنےکی صورت میں کسی بھی الزام میں پھنسا دیں گے۔
ارےسب ان کا پیسہ کھانےکےلئےیہ ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ “ بغل میں بیٹھا آدمی ان کی سرگوشیوں کی باتیں سن کر پھسپھسایا ۔ ” کڑکی لگی ہوئی ہےکسی مجرم سےہفتہ نہیں ملا ہوگا یا اس نےہفتہ دینےسےانکار کردیا ہوگا ۔ اس کےخلاف تو کچھ نہیں کرسکتےاس کی بھرپائی کرنےکےلئےہم شریفوں کو پکڑا گیا ہے۔
تمہارےپاس کیا ملا ؟ “ اس نےپلٹ کر اس آدمی سےپوچھا ۔
تیزاب کی بوتل ۔ “ وہ آدمی بولا ۔ ” اس تیزاب سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں جو کئی مہینوں سےبستر پر ہے۔ اس کی بیماری کےجراثیم مرجائیں ان سےکسی اور کو نقصان نہ پہنچےاس کےلئےڈاکٹر نےاس کےسارےکپڑےاس ایسڈ میں دھونےکےلئےکہا ہے۔ آج ایسڈ ختم ہوگیا تھا وہ میڈیکل اسٹور سےخرید کر لےجارہا تھا ۔ مجھےکیا معلوم تھا اس مصیبت میں پڑجاو

¿
اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔
ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔
ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔
فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔
شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟
انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔
ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔
صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟
جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔
زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔
اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔
نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔
اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
تم ؟
صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔
تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو

¿
نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنےبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔ ٭٭٭
پتہ:۔ ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی،
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Devta By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Devta, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

دیوتا

از:۔ایم مبین

ڈاکٹر کےآپریشن روم سےنکلتےہی چاروں طرف سےلوگوں نےاسےگھیرلیا۔
ڈاکٹر صاحب ! ماما کی حالت اب کیسی ہے؟ “ وشواس گائیکواڑ نےپوچھا۔
ڈاکٹر صاحب ! ماما کی زندگی کو تو اب کوئی خطرہ نہیں ہے؟ “ ارون شندےنےپوچھا ۔
ڈاکٹر صاحب ماما جلدی اچھےہوجائیں گےناں؟ جلدی بتائیےمیرا دل بہت گھبرا رہا ہی۔ “ شنکر پاٹل نےبےچینی سےپوچھا ۔
ڈاکٹر صاحب ! ماما یہاں پر اچھےہوجائیں گےنا؟ “ گوپی ناتھ مہسکر نےپوچھا ۔ ” انہیں کہیں اور لےجانےکی تو ضرورت نہیں آئےگی ؟ اگر ضرورت ہو تو بتا دیجئےہم نےانہیں کہیں اور لےجانےکےانتظامات بھی کرلئےہیں ۔
ڈاکٹر صاحب ! باہر سےاگر دوائیں منگوانےکی ضرورت پڑی تو بےجھجھک کہہ دیجئے۔ ماما کےلئےہم مہنگی سےمہنگی دوائیں لانےکےلئےتیار ہیں ۔ “ پرکاش جادھو بولا ۔
ڈاکٹر گھبرا گیا ۔ اسےاس وقت کم سےکم بیس پچیس لوگوں نےگھیر رکھا تھا اور اسےمعلوم تھا اس وقت اسپتال کےکمپاو

¿جاننےکےلئےبےچین ہیں ۔
وہ لوگ قرب جوار کےدیہاتوں سےآئےہوئےتھے۔ کوئی نگر سول سےآیا تھا تو کوئی اندر سول سےکوئی لہیت سے، کوئی کسٹمری سےتو کوئی راجہ پور سے۔ ان میں سےبہت سےلوگ ایک دوسرےسےشناسا تھےتو بہت سےلوگ ایک دوسرےسےپہلی بارمل رہےتھے۔
وہ تمام افراد صرف ایک ہی مقصد کےلےجمع ہوئےتھے۔ وہ سب ماما کی حالت کےبارےمیں پتہ لگانےوہاں آئےتھےاور اسی کےلئےبےچین تھے۔ ان میں بہت سےلوگ ایسےتھےجنہوں نےماما کو لاکر اس اسپتال میں داخل کیا تھا ۔
جیسےجیسےماما پر قاتلانہ حملےکی خبر پھیل رہی تھی اور یہ معلوم ہورہا تھا ماما کو علاج کےلئےشہر کےاسپتال میں داخل کیا گیا ہے‘ لوگ جوق در جوق ماما کو دیکھنےکےلئےآرہےتھے۔
جب وہ لوگ زخمی ماما کو لےکر سرکاری اسپتال جارہےتھےتو راستہ میں جو بھی ملتا وہاں جیسےہی یہ خبر ملتی کہ ماما پر قاتلانہ حملہ ہوا ہےاور وہ بری طرح زخمی ہوئےہیں اور انہیں اسپتال لےجایا جارہا ہے۔ اس گاو

¿
جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا اس وقت پچاس کےقریب افراد اسپتال میں جمع تھے۔ پھر جیسےجیسےیہ خبر اطراف کےدیہاتوں میں پھیلتی گئی چاروں طرف سےلوگ ماما کی حالت کا پتہ لگانےاور اسےدیکھنےکےلےاسپتال میں آنےلگے۔
جس وقت ماما کو اسپتال میں داخل کیا گیا ماما بےہوش تھا ۔ اس کےسارےکپڑےخون میں لت پت تھے۔ جو لوگ ماما کو سہارا دےکر لائےتھےان کےکپڑوں پر بھی جگہ جگہ خون لگا ہوا تھا ۔
ڈاکٹر نےماما کےزخم کا معائنہ کیا ۔ زخم پشت پر تھا ۔ پورےڈیڑھ فٹ لمبا زخم تھا اور تقریباً ایک انچ گہرا ۔ کہیں کہیں تو گہرائی دو انچ بھی ہوگئی تھی ۔ کہیں کہیں ہڈی دکھائی دےرہی تھی ۔ تلوار کا وار تھا ۔ اس لئےایک دو جگہ کی ہڈی بھی متاثر ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر نےفوراً ماما کو آپریشن وارڈ میں لےجانےکےلئےکہا ۔
زخم بہت بڑا اور گہرا ہےٹانکےلگانےپریں گے۔ اس کےعلاوہ خون بہت بہہ گیا ہے۔ خون دینےکی بھی ضرورت پڑےگی ۔
ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔
ڈاکٹر صاحب ! میرا خون لےلیجئے۔ “ تین چار آوازیں ایک ساتھ ابھریں ۔
ٹھیک ہےہم پہلےخون ٹسٹ کرتےہیں ۔ اس کےبعد جس کےخون کی ضرورت محسوس ہوئی اس کا خون لےلیں گے۔
لوگوں کا اور ماما کا خون ٹسٹ کیا گیا ۔ ٠١ ۔ ٢١ افراد کا خون ماما کےخون سےمیل کھاتا تھا ۔
جےدیو پاٹل ‘ مانک شندے‘ انّا پوار اور وکرم کھیرنار کےجسم سےایک ایک بوتل خون نکالا گیا ۔
دو بوتل خون چڑھانےکےبعد ماما کےجسم میں ہلکی سی حرکت ہوئی ۔ ڈاکٹر اور نرسوں کےچہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔
جو خون بہہ گیا تھا اس خون نےاس کی کمی پوری کردی ہے۔ مریض کو بہت جلد ہوش آجائےگا ۔ اسےجنرل وارڈ میں شفٹ کردیا جائے۔ “ ڈاکٹر نےنرسوں سےکہا اور وارڈ سےباہر نکلا تو لوگوں نےاسےگھیر لیا ۔
دیکھئے! میں نےماما کا زخم سی دیا ہے۔ دو بوتل خون بھی چڑھایا جا چکا ہے۔ ضرورت پڑی تو اور دو بوتل خون چڑھادیا جائےگا ۔ اب ماما خطرےسےباہر ہیں ۔ گھبرانےکی کوئی بات نہیں ۔ ایک دو گھنٹےمیں شاید اسےہوش آجائےگا ۔ لیکن ہوش میں آنےکےفوراً بعد آرام کی غرض سےہم اسےنیند کا انجکشن دےکر سلادیں گے۔ آپ لوگ مریض کےکمرےمیں یا اس کےپلنگ کےپاس بھیڑ نہ لگائیں ۔ مریض کو دیکھنےکےلئےہم ہیں ۔ فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ۔ آپ ماما کو دیکھ کر اپنےاپنےگھر چلےجائیے۔
ڈاکٹر اتنا کہہ کر آگےبڑھ گیا اور لوگ ماما کےباہر آنےکا انتظار کرنےلگے۔ کچھ لوگوں نےماما ےرشتےداروں کو گھیر لیا ۔
بھابی ! ہم نہ کہتےتھےکہ آپ بالکل مت گھبرائیے۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ اب تو آپ نےاپنےکانوں سےسن لیا ہےکہ ماما خطرےسےباہر ہے۔ اب یہ رونا دھونا چھوڑئیےاور اپنی حالت کو سنبھالیے۔ آپ کےرونےسےبچےبھی رونےلگتےہیں ۔ کچھ ماما کی بیوی کو سمجھانےلگےتو کچھ ماما کےبچوں کو ۔
ارےفرت (فرحت ) کیوں رو رہا ہے؟ تیرےابا کو کچھ نہیں ہوگا ۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم سب سےباتیں کریں گے۔ تو تو بڑا ہے‘ سمجھ دار ہےتُو روئےگا تو پھر تیری ماں ‘ بھائی ‘ بہنوں اور تیرےدادا دادی کو کون سمجھائےگا ۔ تُو خود کو سنبھال ۔ کسی طرح کی کوئی فکر نہ کر ہم تیرےساتھ ہیں ۔
کچھ ماما کےوالدین کو سمجھانےلگے۔
سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا ۔ ماما کو کچھ نہیں ہوگا ۔ ان کی جان بچانےکےلئےہم اپنی جان کی بازی لگا دیں گے۔
میرےمعصوم بچےکو مار کر ان لوگوں کو کیا ملا ۔ “ ان کی باتیں سن کر ماما کےوالد بولے۔ ” وہ تو کسی کی چھیڑ چھاڑ میں نہیں رہتا تھا ۔ سویرےبھوکا پیاسہ گھر سےنکل کر دیہات ‘ دیہات کی خاک چھان کر اپنےبال بچوں اور ہمارےلئےدو وقت کی روٹی کا بندوبست کرتا تھا ۔ اس کو مار کر انہیں کیا ملا ۔ وہ تو نہ کوئی مذہبی رہنما تھا اور نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر تھا پھر انہوں نےمیرےبچےکی جان لینےکی کوشش کیوں کی ؟
ابا ! کچھ لوگ سر پھرےہوتےہیں اور اس دیوانگی کےلئےوہ انسانی قدروں اور رشتوں کو بھول جاتےہیں ان پر تو صرف اپنےمسلک کےافکار کا جنون طاری رہتا ہے۔ جن لوگوں نےماما پر حملہ کیا وہ لوگ بھی اسی گروہ سےوابستہ تھے۔ “ سب ماما کےوالد کو سمجھانےلگے۔
کسی نےبھی سوچا نہیں تھا کہ آج جب ماما ان کےگاو

¿جائےگی ۔ آج بھی وہ معمول کےمطابق گاو

¿
اپنی سائیکل پر آگےبڑا سا پٹارا لٹکائےہر کسی کو سلام کرتا ان سےان کی خیریت دریافت کرتا اپنےمخصوص ٹھکانوں پر گیا تھا ۔ اسےپورےتعلقہ کےدیہاتوں میں کس کس گھر میں مرغیاں ہیں اس بات کا پتہ تھا ۔ اس نےروزانہ چند مخصوص دیہاتوں کا نشانہ باندھ لیا تطا ۔ وہ اس دن ان مخصوص دیہاتوں کےان گھروں اور کھیتوں میں جاتا تھا جہاں مرغیاں تھیں ۔ اس گھر کےمالکان بھی اس دن ماما کا انتظار کرتےتھے۔
ہفتہ بھر ان کی مرغیاں جو انڈےدیتی تھیں وہ انڈےوہ جمع کرتےتھےاور ماما کو فروخت کردیتےتھے۔ دن بھر ماما ان دیہاتوں سےانڈےجمع کرتا اور شام کو شہر آکر مرغی انڈےکےاس بیوپاری کو فروخت کردیتا تھا جو ان انڈوں کو ممبئی جیسےبڑےشہروں میں فروخت کرتا تھا ۔
گرمی کےدنوں میں انڈےگرمی سےجلد خراب ہوجاتےہیں ۔ گرمی کےدنوں میں وہ اپنےمخصوص دیہاتوں میں ہفتہ میں دوبار جاتا تھا ۔ تاکہ انڈےخراب نہ ہوں ۔ اپنی ٹوٹی پھوٹی پرانی سائیکل پر وہ روزانہ تیس چالیس کلومیٹر کا سفر طےکرتا تھا ۔
اس سےدیہات کا بچہ بچہ واقف تھا تو وہ بھی ہر گاو

¿کبھی کبھی تو اسےان لوگوں کےگھریلو جھگڑوں میں منصف کا فرض بھی ادا کرنا پرتا تھا ۔ اس نےدیہاتوںکےسینکڑوں جھگڑےنپٹائےتھے۔ اس کےمنصفانہ فیصلوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا ۔ ہر کوئی بڑےاحترام سےان فیصلوں کو قبول کرلیتا تھا ۔ نہ صرف تضادات بلکہ شادی بیاہ کےمعاملوں میں بھی ماما نمایاں کردار ادا کرتا تھا ۔
اگر کسی کےگھر تعلقہ میں کہیں سےرشتہ آتا تو وہ ماما سےاس گھر کےبارےمیں ضرور پوچھتا جہاں سےرشتہ آیا ہے۔ یا اس گھر اور لڑکےکےبارےمیں معلومات نکالنےکی ذمہ داری ماما پر ڈال دیتا تھا ۔
ماما اپنی ذمہ داری کو بڑی خوش اسلوبی سےنبھاتا تھا ۔ اور اتنی معلومات بہم پہنچا دیتا تھا کہ رشتےکےسلسلےمیں فیصلہ کرنےمیں اس شخص کو کوئی دقت پیش نہیںآتی تھی۔ کبھی کبھی اس شخص کا فیصلہ منفی ہوتا اور ماما کو محسوس ہوتا کہ وہ شخص فیصلہ لینےمیں کہیں غلطی کررہا ہےتو ماما اس کو ٹوک کر اپنا فیصلہ بتا دیتا تھا اور پھر وہی ہوتا تھا جو ماما کا فیصلہ ہوتا تھا ۔
کئی بڑےگھرانےاپنی لڑکیوں کےرشتہ کی ذمہ داری ماما پر ڈالتےتھے۔ اور ماما اس طرح ذمہ داری نبھاتےہوئےگذشتہ ٥٢ ٠٣ سالوں میں ہزاروں شادیاں کروا چکا تھا ۔
دیہاتوں کی ہر شادی بیاہ میں ماما کر شرکت لازمی تھی ۔ لڑکےکی شادی ہو یا لڑکی کی ۔ ماما کو وہی عزت دی جاتی تھی جو لڑکےکےباپ کو دی جاتی تھی ۔ ہر شادی میں ماما کو ایک اپرنا (ایک طرح کا رومال ) ضرور دیا جاتا تھا ۔ دیوالی دسہرہ یا ہولی پر ہر گھر میں ماما کو حاضری دینی پڑتی تھی ۔ جس گھر وہ کسی مجبوری کی وجہ سےنہیں جا پاتا تھا اس گھر کےمکین کو اس سےشکایت ہوتی تھی بلکہ ماما کا حصہ ہفتوں تک سنبھال کر رکھا جاتا تھا ۔ بلکہ کچھ معاملوں میں تو ماما کا حصہ اس کےگھر پہنچا دیا جاتا تھا ۔

عید بقر عید شب برات کےموقع پر ماما کےگھر میں دیہاتیوں کا میلہ لگا رہتا تھا ۔ ان تیوہاروں کےآنےسےقبل ماما تمام دیہاتوں میں عام دعوت دےآتا تھا ۔ اور شیر خورمہ پینےاور حلوہ کھانےکےلئےلوگ جوق در جوق اس کےگھر آتےتھے۔ ہر رات دو تین دیہاتوں کا قیام ماما کےگھر کا معمول تھا ۔ وہ لوگ جو کسی کام سےشہر آتےتھےاور کسی وجہ سےان کی آخری بس چھوٹ جاتی تھی یا واپس گاو

¿چلےجاتےتھے۔ ماما کےگھر میں ایک خاص کمرہ مہمان خانہ تھا ۔ وہاں اس طرح کےلوگوں کےلئےسونےکا خاص انتظام رہتا تھا ۔ رات کو وہ ماما کےمہمان خانےمیں آرام کرتےاور سویرےچائےاور ہلکا ناشتہ کرکےواپس اپنےگھر چلےجاتےتھے۔
ماما نےجب اپنی بڑی بیٹی کی شادی کی تھی تو اس کےگھر شادی میں ان دیہاتیوں کی بھیڑ سب سےزیادہ تھی ۔ ماما نےان کےلئےکھانےکا الگ انتظام کیا تھا ۔ وہ لوگ اپنےساتھ اتنےتحائف لائےتھےکہ بیٹی کےجہیز میں ایک ایک چیز دو دو تین تین دینےکےبعد بھی بہت سی بچ گئی تھی ۔
کسی ہفتہ ماما اگر گاو

¿

¿لگانا ۔
جو بھی اس گاو

¿سارےگاو

¿
ماما بیمار ہے۔
ماما ایک رشتہ دار کی شادی میں دوسرےشہر گیا ہے۔
دینداری ماما میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ جس جگہ نماز کا وقت ہوجاتا کہیں سےپانی مانگ کر وضو بناکر وہیں نماز کےلئےکھڑا ہوجاتا تھا ۔ بلکہ کچھ مخصوص گھروں کےلوگوں نےتو ماما کی نماز کےلئےانتظامات بھی کررکھےتھے۔
وہ دیہات جہاں مسجدیں تھیں یا مسلمان تھے۔ ان دیہاتوں کی مسجدوں میں اگر پیش امام نہیں ہوتا تھا تو عصر اور ظہر کی نمازیں ماما کی پیش امامی میں ہی ادا کی جاتی تھیں ۔ دیہاتوں میں اگر کسی مسلمان کی موت ہوجاتی تو اس کی میت کو غسل دینے‘ کفنانےاور نماز جنازہ ادا کرکےدفنانےکا کام بھی ماما انجام دیتا تھا ۔
دیہاتیوں کےاپنےاپنےکام ہوتےہیں ۔ خالی وقت میں بھی گفتگو کےاپنےموضوعات ہوتےہیں ۔ گھریلو معاملات ‘ کھیتی کےمعاملات ‘ بینک ‘ قرض کی جھنجھٹ کےقصے‘ گرام پنچایت ‘ ضلع پریشد اور پنچایت سمیتی کےالیکشن وغیرہ پر بحثیں ۔ عام دنوں میں کیا ہورہا تھا دیہاتوں کےچند لوگوں کو ہی معلوم رہتا ہے۔ وہ بھی صرف ان دیہاتوں میں جہاں اکا دکّہ اخبارا ت پہونچ جاتےتھے۔ یا جن لوگوں کےپاس ٹی وی اور ریڈیو تھا وہ خبریں سن کر اس بارےمیں دوسرےلوگوں کو بتا دیتےتھی۔ ان دنوں پتہ چلا کہ مسلمانوں کی کسی بڑی مسجد کو شہید کردیا گیا جو دراصل رام جنم بھومی تھی ۔ اتنی بڑی خبر پر بھی دیہاتوں میں کوئی ردِّ عمل نہیں ہوا ۔ پھر خبریں آنےلگیں کہ ملک کےبہت سےحصوں میں اس ردِّ عمل میں فسادات ہورہےہیں ۔ بمبئی میں خاص طور پر اس کا بہت زیادہ ردِّ عمل ہوا ہے۔اس سےزیادہ وہ لوگ اور نہیں جان سکی۔
ان دنوں بھی ماما معمول کےمطابق آتا تھا ۔ صرف کچھ لوگ اس سےان معاملوں پر بحث کرتےتھے۔ ماما کو جو معلوم ہوتا ماما اپنی معلومات کےمطابق انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کرتا ۔ اس دن معمول کےمطابق ماما گاو

¿

¿

¿

¿
وشنو پراڈکر ‘ بھاسکر پاٹل ‘ کشن جادھو ‘ اتل جاڑیہ نےگاو

¿جےشری رام ‘ جےبھوانی اور جےشیواجی کےنعرےلگاتےہوئےماما پر حملہ کررہےہیں اور ماما اپنےبچاو

¿
یہ سننا تھا کہ تقریباً سو کےقریب افراد ماما کی مدد کےلئےبھاگےتھے۔ انہوں نےجاکر نہ صرف ماما کو بچایا تھا بلکہ ان لوگوں کو ہتھیاروں کےساتھ پکڑ بھی لیا تھا ۔ ماما سخت زخمی تھا ۔
فوراً ماما کو اسپتال لےجایا گیا ۔ اور ان لوگوں کو پولس اسٹیشن ۔
ان لوگوں نےان ہتھیاروں کےساتھ عبدالغنی فضل الرحمن عرف ماما پر قاتلانہ حملہ کیا تھا ۔ ہم سب اس کےگواہ ہیں انہیں فوراً گرفتار کرکےان کےخلاف سخت سےسخت کاروائی کی جائے۔ “ دس بارہ لوگوں نےپولس اسٹیشن میں گواہیاں دیں تھیں ۔
ان سب کو حراست میں لےلیا گیا ۔ پولس کو خبر دار کیا گیا تھا کہ اگر ان لوگوں کےساتھ نرمی سےپیش آیا گیا یا ان کو رہا کردیا گیا تو اس کےخلاف تحریک چلائی جائےگی ۔ حملہ آوروں کےحق میں بولنےکےلئےان لوگوں کی پارٹی کےلوگ ہی آئےتھےلیکن ان کےخلاف بولنےکےلئےچاروں طرف سےلوگ آئےتھے۔ حملہ آوروں کو پولس کےحوالےکرنےکےبعد مجمع اسپتال میں اکٹھا جہاںماما کا علاج کیا جارہا تھا ۔
ماما کو درکار خون دینےکےلئےقطاریں لگی ہوئی تھیں ۔ چاروں طرف سےاسپتال کےڈاکٹروں اور نرسوں پر دباو

¿ کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر ان سےاس کا علاج نہیں ہوسکتا تو وہ کہہ دیں ہم لوگ ماما کےضلع کےسرکاری اسپتال لےجائیں گے۔ یا بڑےسےبڑےنجی اسپتال لےجائیں گے۔ لیکن ڈاکٹروں کےذریعہ ان لوگوں کو اطمینان دلایا جا چکا تھا کہ ماما کا علاج یہاں پر ہی ہوجائےگا ۔ فکر کرنےکی اور گھبرانےکی کوئی بات نہیں ہے۔
ماما کو آپریشن تھیٹر سےلاکر وارڈ میں رکھ دیا گیا ۔ وہ بےہوش تھا ۔ اس کےچاروں طرف بھیڑ تھی ۔ ڈاکٹر وغیرہ لوگوں کو ماما کےپاس سےہٹ جانےکےلئےاور وارڈ سےباہر جانےکےلئےبار بار اپیل کر رہےتھےلیکن سب ماما کو دیکھنا چاہتےتھے۔
دو گھنٹےبعد ماما نےآنکھ کھولی ۔ اپنےچاروں طرف دیکھا ۔ اپنےاطراف کھڑےچہروں کو پہچانا ۔ ایک شناسا سی مسکراہٹ اس کےچہرےپر ابھری ۔ اور وہ نحیف آواز میں بولا ۔
میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ان لوگوں کو پولس کےحوالےنہ کرنا ۔ وہ نادان ہیں انہیں نہیں معلوم وہ کیا کررہےہیں ۔ “ سب چپ چاپ ماما کو دیکھ رہےتھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ پلنگ پر ماما لیٹا ہےیا کوئی دیوتا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Hawadis By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Hawadis, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

حوادث

از:۔ایم مبین


پولس اسٹیشن گیا تھا ۔ “ اس نےبیزاری سےجواب دیا اور کپڑےاتارنےلگا ۔
رات کےدس بج رہےہیں اور تم پولس اسٹیشن سےآرہےہو ؟ “ بیوی نےحیرت سےپوچھا ۔ ” شام پانچ بجےسےپولس اسٹیشن میں بیٹھا ہوں ۔“ اس نےاپنا سر پکڑتےہوئےجواب دیا۔
تین بجےہی دو کانسٹبل آفس پہنچ گئےتھےاور فوراً پولس تھانےچلنےکےلئےکہہ رہےتھے۔ بڑی مشکل سےمیں نےانہیں سمجھایا کہ آفس میں بہت ضروری کام ہےمیں شام کو تھانےآتا ہوں ۔ شام کو تھانےگیا تو انسپکٹر کا پتہ ہی نہیں تھا جس کےہاتھ میں ملند کا کیس ہے۔ ایک دو گھنٹہ انتظار کرنےکےبعد جانےلگا تو تھانےمیں موجود کانسٹبل ڈرانےدھمکانےلگےکہ تم بنا انسپکٹر صاحب سےملےجا نہیں سکتے۔ اگر تم چلےگئےتو ہوسکتا ہےانسپکٹر صاحب تمہیں رات گھر سےبلائیں۔ مجبوراً اس کا انتظار کرنےلگا۔ نوبجےکےقریب وہ آیا تو مجھ سےاس طرح کا برتاو

¿ صاحب آفیسر ہےجو ہمارےبلانےپر نہیں آتا ہے؟ ہم تیرےباپ کےنوکر ہیں ‘ دوست کےقتل کی گواہی دےرہا ہےتو ہم پر کوئی احسان نہیں کر رہا ہےزیادہ ہوشیاری دکھائی تو اسی کیس میں تجھےپھنسا دوں گا ۔ یہ مت بھول قتل تیری آنکھوں کےسامنےہوا ہےاور تُو اکیلا چشم دید گواہ ہے۔ وہاں موجود دوسرےتمام افراد نےگواہی دینےسےانکار کردیا ہےورنہ جائےواردات پر موجود کوئی بھی فرد قاتلوں کو دیکھنےکی بات ہونٹوں پر نہیں لا رہا ہی۔ اپنےدوست کےقاتلوں کو سزا دلانا چاہتا ہےتوسیدھی طرح ہماری مدد کر جب ہم بلائیں اسی وقت پولس اسٹیشن میں حاضر ہوتا رہ ۔ ورنہ پولس کےساتھ تعاون نہ کرنےکےجرم میں تجھےاندر کردیں گی۔
انہوں نےکس لئےبلایا تھا ؟ “ رادھا نےبات بدلنےکےلئےپوچھ لیا ۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اگر اس نےاس بات کو ختم نہیں کیا تو امیت ساری کہانی لفظ بہ لفظ اسےسنائےگا اور سناتےہوئےتناو

¿
کچھ نہیں ایک دو بیانات پر دستخط لینےتھے۔ جائےواردات پر ملی ایک دو چیزوں کی تصدیق کرنی تھی ۔ “ امیت نےجواب دیا ۔
بھگوان جانےاس کیس سےکب نجات ملے۔“ یہ کہتےہوئےرادھا نےایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر بولی ۔ ” چلو جلدی سےمنھ ہاتھ دھوکر آو

¿ “
ان چار گھنٹوں میں پانی کی ایک بوند بھی منھ میں نہیں گئی ہے۔ “ کہتا ہوا امیت واش بیسن کی طرف بڑھ گیا ۔
پتہ نہیں یہ ہمارےکن پاپوں کی سزا ہےجو بھگوان ہمیں دےرہا ہے۔“ امیت کو واش بیسن کی طرف جاتےدیکھ کر وہ سوچنےلگی ۔ ” ہم کو اس کیس میں پھنسا دیا ہے۔ “ تھوڑی دیر کےبعد دونوں ساتھ بیٹھےبظاہر کھانا کھا رہےتھے۔ لیکن رادھا کا ذہن کہیں اور کھویا ہوا تھا ۔
امیت کی آنکھوں کےسامنےوہ واقعاتگھوم رہےتھےجب اس کےسامنےملند کا قتل ہوا تھا ۔ دونوں ایک ریستوراں میں بیٹھےچائےپی رہےتھے۔
آفس سےچھوٹنےکےبعد ملند نےچائےکی دعوت دی تھی ۔ اسےبھی شدت سےچائےکی ضرورت محسوس ہورہی تھی ۔ دن بھر آفس میں اتنا کام تھا کہ وہ چائےبھی نہیں پی سکا تھا ۔
دونوں آفس سےنکلےاور سامنےوالےریستوراں میں بیٹھ کر چائےپینےلگی۔ شام کا وقت تھا ریستوراں میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی ۔ ویسےبھی وہ باہر کی ٹیبل پر بیٹھےتھے۔
اور بتاو

¿ سےپوچھا ۔
اب اس جھگڑےکےبارےمیں کیا بتاو

¿غنڈوں کےساتھ آیا تھا میں ان سب کو پہچانتا تھا ۔ کہنےلگےکل تک سیدھی طرح جگہ خالی کردے۔ ہم اس بلڈنگ میں دو سو اسکوائر فٹ کا فلیٹ تجھےبلا قیمت دےدیں گے۔ دوسو اسکوائر فٹ کا فلیٹ ‘ سالےجیسےمرغی کو رہنےکےلےڈربہ دےرہےہیں ۔ فی الحال جتنی جگہ میں رہتا ہوں وہ دو ہزار اسکوائر فٹ سےکم نہیں ہوگی ۔ دو ہزار اسکوائر فٹ جگہ کےبدلےدو سو اسکوائر فٹ جگہ دےرہےہیں ۔ جب میں نےوہ جگہ کرائےپر لی تھی آس پاس چاروں طرف جنگل تھا جنگل ۔ اس وقت جگہ کےمالک نےمجھ سےڈپازٹ کےطور پر پانچ ہزار روپےلئےتھےاور کہا تھا میں جتنی جگہ چاہوں استعمال کرسکتا ہوں ۔ میں نےتھوڑی سی جگہ صاف کرکےایک کمرہ بنایا تھا ۔ رات بھر چاروں طرف سےڈراو

¿
مجبوری تھی نئی نئی نوکری تھی ۔ سر چھپانےکےلئےجگہ چاہئیےتھی ۔ اس لئےمیں اس جگہ رہتا تھا ۔ وقت گذرنےلگا تو آس پاس اور بھی لوگ آکر بسنےلگے۔ جنگل ختم ہوا ۔ میں نےصاف صفائی کرکےاور ایک دو کمرےبنا لئے۔ مالک نےکرایہ سو روپیہ کردیا میں باقاعدگی سےکرایہ دیتا تھا ۔ اب جب کہ وہ جگہ آبادی کےوسط میں آگئی ہےچاروں طرف بڑی بڑی بلڈنگیں بن گئی ہیں ۔ زمین کی قیمت کروڑوں روپیہ ہو گئی ہےتو وہ جگہ خالی کرانا چاہتا ہے۔ اس جگہ بلڈنگ بنا کر اسےاونچی قیمت پر فروخت کرنا چاہتا ہی۔
یہ کہانی تو ہر جگہ دہرائی جا رہی ہے۔ “ امیت نےاسےسمجھایا تھا ۔” لیکن جہاں بھی پرانےکرایہ داروں کا نکال کر نئی بلڈنگ بنائی جاتی ہے۔ پرانےکرایہ داروں کو رعایتی قیمت پر ان کی جگہ دی جاتی ہے۔
میرےمالک نےوہ جگہ کسی بلڈر کو دی ہےاور سنا ہےبلڈر بہت بڑا غنڈہ ہےاور وہ چاہتا ہےکہ اس کی دہشت سےمیں چپ چاپ وہ جگہ خالی کردوں لیکن اسےپتہ نہیں اس بار اس کا واسطہ ملند سےہے۔ اس بار اسےاپنا طریقہ

¿ …….. ! “مجھےپانچ سو اسکوائر فٹ کا فلیٹ بھی دینےکےلئےتیار ہو جائےتو میں وہ جگہ خالی کردوں گا ۔ لیکن وہ غنڈہ گردی اور دہشت سےوہ جگہ خالی کرانا چاہتا ہےجو ممکن نہیں …….. ! “
چیخیں گونجیں ۔
انہوں نےریستوراں کےدروازےکی طرف دیکھا ۔
وہ کچھ عنڈےتھےجو ہاتھوں میں ہتھیار لئےریستوراں میں داخل ہوئےتھےاور انہیں دیکھ کر لوگ چیخ اٹھےتھے۔
ان کےتیور سےایسا لگ رہا تھا جیسےوہ کسی کو ڈھونڈ رہےہیں ۔
وہ رہا بھائی ! “ اچانک ایک غنڈےنےملند کی طرف اشارہ کیا ۔
غنڈےکی یہ بات سنتےہی اس شخص کا ہاتھ اوپر اٹھا ۔ اس کےہاتھ میں پستول تھی ۔ اس نےملند کےسر کا نشانہ لیا ۔ ایک دھماکہ ہوا اور ملند کی چیخ گونجی ۔
گولی ملند کےسر میں لگی تھی ۔
دوسرا دھماکہ ۔
اس بار گولی اس کےسینےپر لگی تھی ۔
ملند منھ کےبل ٹیبل پر آکر گرا تھا ۔ اس کےسر اور سینےسےخون کا ایک فوارہ اڑا تھا اور اس کےکپڑوں پر خون کی ایک لکیر سی کھنچ گئی تھی ۔
نہیں …….. ! “ اس کےہونٹوں سےایک چیخ نکل گئی ۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سےکبھی ملند کو دیکھ رہا تھا کبھی ان غنڈوں کی طرف جو بڑےاطمینان سےریستوراں ےدروازےسےنکل کر باہر کھڑی کار میں بیٹھ رہےتھی۔
اور پھر کار تیزی سےچلی گئی ۔ ایک لمحہ کےلئےاس کی نظریں کار کی نمبر پلیٹ پر پڑی اور اس نےکار کےنمبر ذہن نشین کرلئے۔
کسی نےپولس کو اطلاع دی ۔ پولس آئی اور اس نےجانچ شروع کردی ۔ اس قتل کا چشم دید گواہ وہی تھا ۔ وہ ملند کےساتھ تھا اس لئےپولس کےلئےسب سےاہم فرد وہی تھا ۔
ابتدائی کاروائی کےلئےملند کی لاش پوسٹ مارٹم کےلئےبھیج دی گئی اور اسےبیان لینےکےلئےپولس اسٹیشن بلایا گیا ۔ بیان لینےکےساتھ ساتھ اس سےسینکڑوں سوالات کئےگئے۔
کیا تم نےاس سےقبل کبھی قاتلوں کو دیکھا تھا ؟
نہیں اس سےقبل تو انہیں کبھی نہیں دیکھا تھا ‘ لیکن جس شخص نےملند پر گولی چلائی تھی اس کو بآسانی پہچان لوں گا ۔
تم کس بنا پر کہہ رہےہو کہ تم اس کو بآسانی پہچان لوگے؟
اس کا حلیہ ایسا ہےکہ اس حلیہ کا آدمی لاکھوں میں آسانی سےپہچانا جاسکتا ہی۔“ یہ کہتےہوئےوہ قاتل کا حلیہ بیان کرنےلگا ۔
اسےکسی پر شک ہےکےجواب میں اس نےوہ ساری کہانی بیان کی جو ملند اسےسنا چکا تھا۔
اس درمیان پولس جاکر ملند کی بیوی اور گھر والوں کو بلالائی تھی ۔ انہوں نےرو رو کر پولس اسٹیشن سر پر اٹھا رکھا تھا ۔ لیکن ان کی ذہنی حالت کا اندازہ لگائےبنا پولس اپنی کاغذی کاروائیاں مکمل کر رہی تھی ۔
رات چار بجےاسےپولس اسٹیشن سےنجات ملی اور وہ گھر آیا تو رادھا اس کا انتظار کر رہی تھی ۔
اتنی رات گئےگھر آئےہو ‘ کہاں رک گئےتھے؟ میں ایک لمحہ کےلئےنہیں سو سکی ۔ طرح طرح کےوسوسےمجھےبےچین کررہےتھے۔
جواب میں اس نےملند کےقتل کی کہانی سنائی ۔
دوسرےدن ملند کی لاش اس کےگھر والوں کو ملی ۔ ملند کی آخری رسوم میں بھی وہ شریک رہا ۔
ملند کےوالد کی حالت غیر تھی ۔ وہ اپنی عمر سےکچھ زیادہ ہی بوڑھےلگنےلگےتھے۔
میرےملند کو اس مکان کےمالک نےمروایا ہے۔ وہ زبردستی یہ جگہ خالی کروانا چاہتا تھا اور ہم جگہ خالی نہیں کر رہےتھے۔ اس لئےاس نےہمارےملند کو مروادیا۔ “ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونےلگے۔
تیسرےدن پتہ چلا کہ پولس نےملند کےمکان مالک کو پوچھ تاچھ کےلئےپولس اسٹیشن بلایا تھا لیکن بعد میں اسےیہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کےخلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔دوسرےدن اسےکسی کام سےپولس اسٹیشن طلب کیا گیا تو وہ انسپکٹر پر پھٹ پڑا۔
آپ نےملند کےمکان مالک کو صرف پوچھ تاچھ کےلئےپولس اسٹیشن بلایا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ اس کےخلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہےجس سےیہ ثابت ہوتا ہےکہ اس قتل کےپیچھےاسی کا ہاتھ ہے۔ انسپکٹر صاحب ! کسی سےدشمنی نہیں تھی ۔

چاہیئےتجھ سےزیادہ بہتر ہم لوگ جانتےہیں وردی ہمارےجسم پر ہےتیرےجسم پر نہیں۔ ہمارا باس بن کر ہم کو حکم مت دے۔ “ انسپکٹر نےکچھ ایسےلہجےمیں کہا کہ اسےخون کا گھونٹ پی کر رہنا پڑا ۔
دو دن بعد پولس کو وہ کار بھی مل گئی جس میں قاتل بھاگےتھے۔ شناخت کےلئےاسےبلایا گیا ۔ اس نےایک نظر میں ہی کار پہچان لی ۔ کار ایک ویرانےمیں ملی تھی ۔ اور دو دن قبل چوری ہوئی تھی ۔ اس کےمالک نےکار چوری ہونےکی رپورٹ لکھائی تھی ۔ کار کی شناخت اور اس کےبیان میں رات کےدو بج گئے۔ جب وہ گھر آیا تو رادھا اس کا انتظار کررہی تھی ۔
دیکھو تم میرےلئےبےکار پریشان ہو کر میرےآنےتک جاگتی رہتی ہو ۔ “ وہ اسےسمجھانےلگا ۔ ” پولس کا معاملہ ہےاس میں وقت لگتا ہے۔ اگر میں سات آٹھ بجےتک گھر نہیں آو

¿
ایسا کب تک چلےگا ؟
جب تک ملند کےقاتل پکڑےنہیں جاتے۔ “ اس نےجواب دیا ۔
ایک ہفتہ بعد وہ خود ہی پولس اسٹیشن پہنچ گیا ۔ ملند کےقاتل کی تلاش کس مرحلےمیں ہےپتہ لگانےکےلئے۔ جب اس سلسلےمیں ملند کےقتل کی تحقیقات کرنےوالےانسپکٹر سےپوچھا تو انسپکٹر بھڑک اٹھا ۔
پولس اپنا کام کررہی ہے۔ اور وہ قاتل کو گرفتار کرلےگی ۔ اس سلسلےمیں تُو ہم سےپوچھنےوالا کون ہوتا ہے؟ ہماراباپ یا کمشنر ؟ “ انسپکٹر کےاس جواب سےوہ جل بھن گیا ۔
ایک شام وہ آفس سےآرہا تھا تو ایک ہوٹل کےباہر کھڑےہوئےایک شخص کو دیکھ کر وہ چونک پڑا ۔ اس شخص کو وہ لاکھوں میں پہچان سکتا تھا ۔ یہی ملند کا قاتل تھا ۔ اس نےملند پر گولی چلائی تھی ۔
باسٹرڈ ! میں تجھےزندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ “ کہتےہوئےوہ اس پر جھپٹا ۔ غنڈےنےبڑی آسانی سےخود کو چھڑا کر اسےدھکا دےکر زمین پر گرا دیا اور اطمینان سےپاس کھڑی موٹر سائیکل پر سوار ہوکر چلتا بنا ۔ وہ ہکا بکا اسےجاتا دیکھتا رہ گیا ۔ وہاں سےوہ سیدھا پولس اسٹیشن پہنچا ۔
انسپکٹر صاحب ! آپ بھی کمال کرتےہیں‘ آپ کو ملند کا قاتل نہیں مل رہا ہےوہ سینہ تان کر شہر میں دندناتا پھر رہا ہے۔ ابھی مجھےوہ رائل ہوٹل کےباہر ملا تھا۔
پھر تم نےاسےپکڑا کیوں نہیں ‘ وہ کس طرح بھاگ نکلا ۔ کہیں تم نےتو اسےنہیں بھگایا ہے‘ قاتل تمہارےسامنےتھا اور تم نہیں پکڑ پائےتم نےاسےبھگا دیا ‘ اس سےتو لگتا ہےتمہارا بھی اس قتل میں ہاتھ ہے۔ تم نےاپنی مدد کےلئےدوسرےلوگوں کو کیوں نہیں بلایا ؟ “ الٹا اس پر سینکڑوں سوالوں کا حملہ ہوگیا اور اسےجواب دینا مشکل ہوگیا ۔ اور اسےمحسوس ہوا اس نےپولس اسٹیشن آکر غلطی کی ۔
اس کےبعد اس نےطےکیا کہ وہ خود سےکبھی پولس اسٹیشن نہیں جائےگا ۔ وہاں جاکر اسےجو بےعزتی برداشت کرنی پڑتی تھی اب وہ برداشت کرنےکی اس میں قوت نہیں ہے۔ لیکن اس کےچاہنےسےکیا ہوتا ہے؟
خود پولس ایک دو دن بعد اسےپولس اسٹیشن بلا لیتی اور گھنٹوں پولس اسٹیشن بٹھا کر رکھنےکےبعد دوچار اوٹ پٹانگ سوالات کرکےاسےچھوڑ دیتی تھی ۔
وہ آفس پہنچتا تو سپاہی آدھمکتےتھےاور کہتےتھےکہ صاحب نےاسےبلایا ہےاور مجبوراً اسےان کےساتھ جانا پڑتا تھا ۔
ایک دو بار باس نےاسےبلا کر صاف کہہ دیا ۔
تم یا تو نوکری کرو یا پولس اسٹیشن میں رہو ۔ یہ تمہارا بار بار پولس اسٹیشن آفس چھوڑ کر جانا مجھےبالکل پسند نہیں“ اس سلسلےمیں جب اس نےانسپکٹر سےبات کی تو انسپکٹر اس پرغصہ ہوگیا ۔
ای…….. ! تُونےہی اپنےبیان میں لکھوایا ہےکہ تُونےقاتل کو دیکھا ہی۔ تُو قاتل کو پہچان سکتا ہےاس لئےبار بار پولس اسٹیشن بلایا جارہا ہےکہ ہم جو آدمی پکڑیں اس کی تجھ سےشناخت کرائی جاسکے۔ اگر تُو اپنا بیان بدل دےاور یہ کہہ دےکہ تُونےقاتل کو نہیں دیکھا تُو اسےنہیں پہچانتا ہےتو ہم تجھےبلائیں گےہی نہیں ۔ تجھےایک معمولی گواہ بنا کر تیرا معاملہ ختم کردیں گی۔
اپنےضمیر سےجنگ لڑنےکہ بعد اس نےیہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنا بیان نہیں بدلےگا ۔ وہی ملند کےقتل کا چشم دیدگواہ ہے۔ قاتل کو پہچانتا ہے۔ اس کی گواہی قاتل کو اس کےکئےکی سزا دلاسکتی ہےاس کےلئےاسےیہ سب تو برداشت کرنا ہی پڑےگا ۔
پولس اسٹیشن میں روز کی حاضری اس کا معمول بن گیا تھا ۔ وہ خود کبھی پولس اسٹیشن نہیں جاتا تھا ہر بار اسےبلایا جاتا تھا ۔ وہاں اس کےساتھ ہر کوئی بد تمیزی سےپیش آتا ‘ اس کا مذاق اڑاتا اور اسےگھنٹوں پولس اسٹیشن میں بٹھا کر رکھا جاتا ۔ اور پھر اسےکوئی چور اچکا دکھا کر پوچھا جاتا کہ یہ تو ملند کا قاتل نہیں ؟ جب وہ انکار کردیتا تو اسےگھر جانےکی اجازت دےدی جاتی ۔ اس درمیان ایک بار پھر اس سےملند کا قاتل ٹکرایا تھا ۔
قاتل نےروک کر اس سےبڑی دیدہ دلیری سےکہا تھا ۔
کیوں امیت صاحب ! میری شناخت کرنا چاہتےہو ناں ؟ ارےپولس مجھےپکڑےگی ہی نہیں تو تم کہاں سیشناخت کرسکوگے۔ دیکھو میں کس دیدہ دلیری سےشہر میں گھوم رہا ہوں ۔ پولس مجھےجانتی ہےلیکن مجھ کو گرفتار نہیں کررہی ہے۔ کیونکہ میرا رسوخ بہت ہے۔ اس لئےمیرا ایک ہی مشورہ ہےاس معاملےکو ختم کردو ۔ مجھےپہچاننےسےانکار کردو اور اپنےبیان میں لکھ دو کہ تم قاتل کو نہیں پہچان سکتے۔ سارا معاملہ ختم ہوجائےگا ۔ تمہیں بار بار پولس اسٹیشن نہیں بلایا جائےگا ۔
اور وہ چلا گیا ۔
اس دن جب اسےپولس اسٹیشن بلایا گیا تو وہ انسپکٹر پر برس پڑا ۔
انسپکٹر صاحب! آپ مجھےروزانہ قاتل کیشناخت کےلئےپولس اسٹیشن بلاتےہیں اور مجھےمعمولی چور اچکےبتا کر گھر واپس بھیج دیتےہیں جبکہ اصلی قاتل اب تک آزاد ہے۔ وہ شہر میں دندناتا پھر رہا ہےمجھ سےمل کر دھمکیاں دےرہا ہے۔ پھر بھی آپ اسےنہیں پکڑ رہےہیں ۔ یہ کیا تماشہ ہے؟
اس کی اس بات پر انسپکٹر نےاسےایک گھونسہ رسید کردیا ۔
حرامزادے! پولس کےمحکمےپر الزام لگاتا ہے۔ زیادہ بکواس کی تو ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دوں گا تجھ سےجو کچھ کہا جا رہا ہےاس سےزیادہ مت بک زیادہ بک بک کی تو اندر کردوں گا ۔
وہ چپ ہوگیا ۔
اس دن بھی اسےایک معمولی چور دکھایا گیا اور گھر جانےکا حکم دےدیا گیا ۔ وہ گھر واپس آیا تو سکتےمیں تھا ۔ وہ یہ کس پریشانی میں پڑ گیا ہےاس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا ۔ وہ رات بھر سو نہیں سکا۔ رادھا اس سےپوچھتی رہی کہ کیا بات ہےلیکن اس نےاسےکچھ نہیں بتایا ۔ چپ چاپ صرف چھت کو گھورتا رہا ۔
دوسرےدن اسےپولس اسٹیشن نہیں بلایا گیا ۔ اس شام چھ بجےہی وہ گھر آگیا اور کھانا کھا کر نو بجےہی وہ سو گئے۔
رات میں دروازےپر دستک کی آواز سن کر اس کی آنکھ کھلی ۔ رات کےبارہ بج رہےتھی۔ اتنی رات گئےکون گھر آسکتا ہے؟ سوچتےہوئےاس نےدروازہ کھولا تو اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ باہر آٹھ دس غنڈےکھڑےتھےوہ دندناتےہوئےاس کےگھر میں گھس آئےان غنڈوں کےساتھ ملند کا قاتل بھی تھا ۔ ان کو دیکھ کر رادھا کی چیخ نکل گئی ۔
اپنی بیوی سےکہہ کہ وہ چیخ پکار نہ کرے۔ ہم صرف دو باتیں کرنےآئےہیں۔ دو باتیں کرکےہم چلےجائیں گے۔ اگر وہ چیخی تو مجبوراً اس کا منھ بند کرنےکےلئےہمیں کوئی قدم اٹھانا پڑےگا ۔ “غنڈوں کا باس اس سےبولا ۔ اس نےاشارےسےرادھا سےخاموش رہنےکو کہا ۔
امیت بابو ! تم ملند کےقتل کےکیس میں گواہی دےرہےہو ۔ کاہےکو اس جھنجھٹ میں پڑتےہو ۔ دیکھو یہ بہت برا شہر ہےملند دن دہاڑےمار دیا گیا ۔ اور اس کو مارنےوالےہم لوگ آج بھی آزاد ہیں ۔ پولس ہم پر ہاتھ ڈالنےکی ہمت نہیں کررہی ہےاور کرےگی بھی نہیں ۔ لیکن تمہاری گواہی اسےمجبور کررہی ہےکہ وہ یہ ہمت کرے۔ اس لئےکاہےکو خواہ مخواہ ہم سےاور پولس سےدشمنی مول لےرہےہو ۔ بھول جاو

¿

¿ بھی کسی سڑک پر قتل ہوجائےگا ۔ تم اس شہر میں نوکری کرنےآیا ہےاگر تم مر گیا تو یہ تمہارا جو بیوی ہےدو دنوں تک اس کو پتہ بھی نہیں چلےگا کہ تم مر گیا ہے۔ تمہارےمرنےکےبعد یہ تمہارا بیوی اکیلا رہ جائےگا ۔ یہ بہت بڑا شہر ہےیہ شہر اکیلی عورت کو ویشیا بنا دیتا ہے۔ یہ بہت بُرا شہر ہےچھوٹےآدمی کو اس شہر کےبڑےلوگوں کےلفڑوں میں نہیں پڑنا چاہیئی۔ دن بھر محنت کرکےملنےوالی دو روٹی کھا کر آرام سےسوجانےمیں ہی بھلائی ہی۔ ہمارےجیسےلوگ اپنا کام کرتےرہتےہیں اور ہمارےکام میں جو بھی ٹانگ اڑاتا ہےاس کا انجام ملند سا ہوتا ہے۔ ہمارا کچھ نہیں بگڑتا ۔ اس لئےاب تم بھی ہمارےکسی کام میں ٹانگ مت اڑاو

¿

¿
چلو …….. ! “
گئے۔
رادھا سکتےمیں کھڑی انہیں دیکھتی رہی اور پھر اچانک وہ آکر اس سےلپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی ۔ وہ اس کو سینےسےلگائےاس کےبالوں میں انگلیاں پھیرنےلگا ۔
دوسرےدن شام پانچ بجےہی دو کانسٹبل اسےبلانےآگئے۔
صاحب نےبلایا ہے۔ دو آدمی پکڑےہیں شاید وہ ملند کےقاتل ہوں ۔ تمہیں پہچاننےکےلئےبلایا ہے۔
وہ چپ چاپ ان کےساتھ چل دیا ۔
آو

¿ ! آج کےبعد تمہیں ہم سےکوئی شکایت نہیں رہےگی ۔ ہم نےدو آدمی پکڑےہیں اور ہمیں پورا یقین ہےکہ ان میں سےایک ملند کا قاتل ہے۔ وہ قاتل کون ہے؟ اب یہ تمہاری شناخت پر منحصر ہے۔“ انسپکٹر نےکہا اور سپاہی کو ان آدمیوں کو لانےکا اشارہ کیا ۔
دو آدمی اس کےسامنےلائےگئے۔ ایک تو اجنبی تھا اور دوسرا ملند کا قاتل ۔ وہ سکتےمیں آگیا ۔
بتاو

¿ ! کیا ان میں سےکوئی ملند کا قاتل ہے؟
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سےملند کےقاتل کو دیکھنےلگا ۔
بتاو

¿ ! کیا تم انھیں پہچانتےہو ؟ “ انسپکٹر نےپھر پوچھا ۔
نہیں انسپکٹر صاحب ! میں انہیں نہیں پہچانتا ۔ میں نےان کو پہلےکہیں نہیں دیکھا ۔ “ وہ بولا اور پھر اچانک اپنےدونوں ہاتھوں سےاپنا چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونےلگا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Jahannam By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Jahannam, M.Mubin, Short Story, Urdu

SA N �xR L ��u �A� ont-size:18.0pt;mso-ascii-font-family: Verdana;mso-hansi-font-family:Verdana;color:#595959'>ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
M.Mubin
Classic Plaza, Teen Batti
BHIWANDI_ 421302
Dist.Thane Maharashtra India)
Mob:- 09322338918) )
mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Dahshat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 20-11-2010
 
Copyright (c) 2010 Kahani Nagari Centre of Short Storeis in Hindi and Powered by Blogger.