Thursday, November 3, 2011

Urdu Short Stories By M.Mubin Part Six


 

افسانہ دہشت کا ایک دِن از:۔۔ایم مبین

جب وہ گھر سےنکلا تو سب کچھ معمول کےمطابق چل رہاتھا ۔
بلڈنگ کا واچ مین اُسےدیکھ کر کھڑا ہوگیا اور اُس نےاُسےسلام کیا ۔ اُس نےسر کےاِشارےسےاُس کےسلام کا جواب دیا ۔ آگےبڑھا تو ایس ۔ ٹی ۔ ڈی میں بیٹھےساجد نےاُسےسلام کیا ، خلاف معمول اُس دِن اُس کےپی ۔ سی ۔ او پر بہت زیادہ بھیڑ تھی اور زیروکس نکالنےوالوں کی بھی قطار لگی تھی ۔ کلاسک آئیل ڈپو میں بیٹھےگڈو نےاُسےسلام کیا ۔ اُن کےسلام کا جواب دیتا جب وہ سیڑھیوں سےنیچےاُترا ۔
سامنےآلو پیاز والےدوکانداروں کی شناسا صورتیں دِکھائی دیں ۔ اور وہی رکشا ، ہاتھ گاڑی ، موٹر سائیکل ، اسکوٹروں کی ریل پیل اور اُن کےہارن کا شور اُن کےدرمیان سےراستہ بناتا وہ بڑی مشکل سےآگےبڑھا ۔
بسم اللہ چکن سینٹر پر چکن خریدنےکےلئےلوگوں کی قطار لگی تھی ۔ ایک تختی پر آج کا نرخ لکھا تھا۔ لٹکتی تختی ہوا کےساتھ گول گول گھوم رہی تھی ۔
اُس کےسامنےوالی چکن کی دُکان پر نرخ ایک روپیہ کم تھا ۔
سدگرو ہوٹل کےباہر مٹھائی بنانےوالا پیاز کےبھجئےتل رہا تھا ۔ بڑےسےطباق میں وہ جلیبیاں ، وڑےاور آلو کےپکوڑےپہلےہی تل چکا تھا ۔ گلزار کولڈرنک میں اِکّا دُکّا گاہک بیٹھےمشروب کا مزہ لےرہےتھے۔
برف کی گاڑی آگئی تھی ‘ برف کی بڑی بڑی لادیاںاُس پر سےاُتاری جارہی تھیں ۔ برف لینےوالوں کی بھیڑ تھی ۔ جیسےہی کوئی گاہک برف کی قیمت ادا کرتا ، دو آدمی بڑی آہنی قینچی میں برف کی لادی پکڑ کر اُس کےرکشا میں رکھ آتے۔
ماموں ابوجی کی دوکان پر دُودھ لینےوالوں کی بھیڑ لگی تھی ۔ اُس کےسر پر دُودھ کےنرخ کی تختی ہوا سےگھوم رہی تھی ۔
٣ روپیہ پاو

¿ ، ٠١ روپیہ کا ایک کلو ، تین روپیہ پاو

¿ ، دس روپیہ ایک کلو ۔“ ٹماٹر فروخت کرنےوالےزور زور سےآوازیں لگا رہےتھے۔
بھائی السلام وعلیکم ! “ آواز لگاتے، لگاتےانور اور شکیل نےحسب معمول اُسےسلام کیا ۔ سلام کا جواب دےکر خود کو بھیڑ کےدھکّوں اور نیچےکےکیچڑ سےبچاتا وہ آگےبڑھا ۔
رکشہ کی قطار میں کھڑےعزیز نےاُسےسلام کیا ۔
آگےبڑھا تو پولس اسٹیشن کےباہر کئی سپاہی کھڑےتھےاور ایک سپاہی اُنھیں اُن کی ڈیوٹی کا ایریا بتا رہا تھا ۔
نمسکار صاحب ! “ ایک کانسٹبل نےاُسےسلام کیا ۔
ارےپوتدار ! چلو ۔ “اُس نےجواب دیا ۔
نہیں آج میری ڈیوٹی نہیںہے‘ شاید کوئی دُوسرا سپاہی آئے۔ “ سپاہی نےجواب دیا۔
مرچی والوں کی دُکان کےپاس سےگذرتےہوئےاُسےکھانسی آگئی ۔ اُس نےکھانسی پر قابو پایا اور آگےبڑھا ۔ سنگم جویلرس کی دوکان بھی کھل گئی تھی ۔ راج دیپ ہوٹل کےکاو

¿نٹر پر بیٹھےسندیپ نےاُسےنمسکار کیا اور باہر پوری بھاجی بنانےوالےآدمی کو گالی دیتےہوئےاُسےجلد آرڈر کا مال بنانےکےلئےکہا ۔
سنیما کی گلی سےہوتا وہ پوسٹ آفس تک آیا ۔ پوسٹ آفس کےباہر منی آرڈر ، رجسٹر کرنےوالوں کی بھیڑ تھی ۔ سعیدی ہوٹل کےباہر دوچار آوارہ لڑکےبیٹھےآنےجانےوالوں کو چھیڑ رہےتھےاور آنےجانےوالی عورتوں اور لڑکیوں پر بھدےفقرےکس رہےتھے۔
اُن سب سےگذر کر وہ وقت پر آفس پہونچ گیا اور آفس کےکاموں میں لگ گیا۔
آفس میں اُس دِن زیادہ بھیڑ تھی ، کام کا لوڈ بھی زیادہ تھا ۔ایک ، ایک آدمی کو نپٹاتےہوئےکب دو تین گھنٹےگذر گئےپتا ہی نہیں چل سکا ۔
اچانک اُس کےایک ساتھی موہن کو اُس کےبھائی کا فون آیا ۔
فون پر بات کرنےکےبعد جب اُس نےریسیور رکھا رکھا تو اُس کےچہرےپر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں ۔
کیا بات ہے؟ “ اُس نےموہن سےپوچھا ۔
بھائی کا فون تھا ۔ ناکےپر کسی وکیل کو گولی ماردی گئی ہے۔ وہ جگہ پر ہی مرگیا ۔ شہر میں بھگدڑ مچ گئی ہے۔ دوکانیں بند ہورہی ہیں ۔گڑ بڑ ہونےکا اندیشہ ہے‘اُس نےکہا ہےکہ میں آفس سےآجاو

¿ں ۔
یہ بات سن کر اُس کےماتھےپر بھی شکنیں اُبھر آئیں ۔ اُس نےسوالیہ نظروں سےباس کی طرف دیکھا ۔
میں فون لگا کر تفصیلات معلوم کرتا ہوں ۔ “ کہتےہوئےباس نےریسیور اُٹھایا ۔
دو تین نمبر ڈائل کرکےجھلّا کر ریسیور رکھ دیا ۔
ٹیلی فون ڈیڈ ہوگیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد پیون بھی واپس آگیا ۔ وہ کسی کام سےباہر گیا تھا ۔
کیا ہوا جادھو ؟ “اُس نےپوچھا ۔
کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہےپورےشہر میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ کسی وکیل کو گولی مار دی گئی ہے۔ دوکانیں بند ہورہی ہیں ، لوگ اِدھر اُدھر بدحواسی سےبھاگ رہےہیں ۔ پتا چلا ہےکہ رکشا اور گاڑیوں پر پتھراو

¿ کیا جارہا ہے۔ میری آنکھوں کےسامنےچار پانچ کانچ پھوٹی رکشا آئی ۔ سب سےزیادہ لفڑا نذرانہ کی طرف ہے۔
نذرانہ ! “ یہ سنتےہی باس کےچہرےپر ہوائیاں اُڑنےلگیں ۔ میری بیٹی اِس وقت وہاں ٹیوشن کےلئےگئی ہوگی ۔
اور وہ گھبرا کر پھر ریسیور اُٹھا کر ٹیلی فون ڈائل کرنےلگا ۔ اتفاق سےٹیلی فون لگ گیا ۔
مینا کہاں ہے؟ “ ٹیوشن کےلئےگئی ہے۔ ” ٹیوشن کا وقت تو ختم ہوگیا ‘ وہ ابھی تک واپس کیوں نہیں آئی ، سنا ہےاُس علاقےمیں بہت گڑبڑ چل رہی ہے؟ فوراً کسی کو بھیجو اور اُسےٹیوشن کلاس سےلےآو

¿ ۔ “ کہتےاُس نےٹیلی فون کا ریسیور رکھ دیا ۔ لیکن اُس کےچہرےپر تفکّر کی شکنیں تھیں ۔
اِس کےبعد اُس نےگھر ٹیلی فون لگا کر حالات معلوم کرنےکی کوشش کی تو ٹیلی فون ڈیڈ ہوچکا تھا ۔ آفس سےباہر جھانکا تو ساری دوکانیں بند ہوگئی تھیں ، سڑکیں سنسان ہوگئی تھیں ، سڑکوں پر کوئی سواری دِکھائی نہیں دیتی تھی ۔ لوگ دودو چار چار کی ٹولیاں بنا کر آپس میں باتیں کررہےتھے۔
کیا کیا جائے؟ “ اُس نےباس سےپوچھا ۔ ” آفس بند کردیا جائے۔
بالکل بند کردیا جائےجلدی سےباقی بچےکام نپٹا لیجئے۔ “ باس نےکہا اور پھر گھر فون لگانےکی کوشش کرنےلگا ۔
جادھو ! سامنےسےنسیم سےموبائیل لےکر آو

¿ ۔ شاید اُس سےرابطہ قائم ہوسکے۔ “ اُس نےپیون سےکہا ۔
جادھو نےموبائیل فون نہیں لایا ‘ خود نسیم موبائیل فون لےکر آگیا ۔
صاحب سارےٹیلی فون ڈیڈ ہوگئےہیں ‘ میں بھی کئی جگہ فون لگانےکی کوشش کررہا ہوں ، آپ کو کون سا نمبر لگانا ہے؟
باس نےنمبر بتایا نسیم نےنمبر لگانےکی کوشش کی مگر نمبر نہیں لگا ۔
لگتا ہےسارےشہر کےٹیلی فون بند کردئےگےہیں ۔
سب کام ختم کرنےمیں لگ گئے۔ اُس نےدوچار بار گھر فون لگانےکی کوشش کی اتفاق سےایک بار لگ گیا ۔
کیا صورتِ حال ہے؟ “ اُس نےپوچھا ۔
یہاں پر گڑبڑ ہے۔ ساری دُکانیں بند ہوگئی ہیں ۔ سڑک کی دونوں طرف ہزاروں افراد کی بھیڑ ہے‘ جو ایک دُوسرےکےخلاف نعرےبازی کر رہےہیں ، پتھراو

¿ بھی ہورہاہےمعاملہ کبھی بھی بگڑ سکتا ہے۔
میں گھر آو

¿ں ؟ “ اُس نےپوچھا ۔
گھر آنےکی حماقت بھول کر بھی نہیں کرنا ۔ سارےراستےبند ہیں ، راستوں پر لوگوں کی بھیڑ ہےاور جوش میں بھری بھیڑ کبھی بھی کچھ بھی کرسکتی ہے۔ آپ جہاں ہیں وہیں رہیں ۔ جب حالات معمول پر آجائیں گےتو آجانا ۔ ورنہ آنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آفس کےآس پاس آپ کےبہت دوست ہیں ‘ کسی کےپاس بھی رُک جائیےاور مجھ سےرابطہ قائم رکھئے۔ “ بیوی نےجواب دیا ۔
اُس نےریسیور نیچےرکھا ۔
آفس بند کرنےکی تیاری ہوگئی تھی ۔ موہن کا بھائی اسکوٹر لےکر آگیا تھا ۔
چلو میں چلتا ہوں ۔
سنو ۔ “ اُس نےکہا ۔ ” پرانےپل کےراستےنہیں جانا ‘اُدھر خطرہ ہے۔
نہیں میں پل کےراستےہی آو

¿ں گا ۔ “ موہن نےکہا ۔
صاحب اورجادھو بھی آفس بند کرکےجانےکی تیّاری کرہےتھے‘ اُن کےگھر آفس سےکافی قریب تھے۔
تم کیا کروگے؟ “ باس نےپوچھا ۔
بیوی کو فون کیا تھا ‘ وہ کہتی ہےمیں گھر واپس آنےکی حماقت نہ کروں ۔ سارےراستےبھیڑ سےبھرےہیں ‘ لوگوں کےہاتھوں میں ہتھیار ہے، پتھراو

¿ ہورہا ہے، راستےمیں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ میں جن راستوں سےگذر کر گھر پہونچتا ہوں ‘ وہاں تو بہت زیادہ تناو

¿ ہےاور پھر اُن علاقوں کا ہر فرد مجھےپہچانتا ہے۔ ذرا سی گڑبڑی کی صورت میں میری جان کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔
تو میرےگھر چلو ‘ جب حالات معمول پر آجائیں تو گھر چلےجانا ۔ “ باس بولا
نہیں میں یہاں رُکتا ہوں ۔ اگر ضرورت پڑی تو آپ کےگھر آجاو

¿ں گا ۔ “ آفس بند کردیا گیا ۔ باس اور جادھو چلےگئے۔ وہ آفس کےسایےمیں کھڑا ہوگیا ۔
اُسی وقت سامنےسےمصطفیٰ آتا دِکھائی دیا ۔
مصطفیٰ کیا بات ہے؟ “ اُس نےپوچھا
آپ کی طرف ہی آرہا تھا جاوید بھائی ! پورےشہر میں گڑبڑ چل رہی ہے۔ آپ کا گھر جانا ٹھیک نہیں ہے‘ چلئےمیرےگھر چلئے۔ رات میں بھی میرےگھر ہی رُک جانا ۔ میں نےبھابھی کو فون کیا تھا ۔ بھابھی نےکہا ہےکہ میں آپ کو گھر جانےنہ دوں ۔ اپنےگھر روک لوں ۔ وہاں بہت گڑبڑ ہے۔
وہ باتیں کرتا مصطفیٰ کےساتھ اُس کےگھر چل دیا ۔
گڑبڑ شروع کیسےہوئی ؟
پتہ نہیں ! وہ وکیل شہر کےچوراہےسےہوتا کورٹ جارہا تھا ۔ اچانک دو موٹر سائیکل سواروں نےاُسےروک کر اُس کےسر میں گولی مار دی ‘ وہ وہیں ڈھیر ہوگیا ۔ ہوگی کوئی پرانی دُشمنی یا گینگ وار کا چکّر ۔وہ وکیل ویسےبھی اِس طرح کےکالےکارناموں میں ملوث تھا اور کافی بدنام تھا ۔ لیکن ایک سیاسی جماعت کےکیس کی پیروی بھی وہی کرتا تھا ۔ اِس لئےاس جماعت نےاسےسیاسی اور پھر فرقہ ورانہ رنگ دےدیا ۔ دوکانیں بند کرانےلگے۔ دوکانیں بند نہ کرنےوالےدوکانداروں کو مارتےپیٹتےاور اُن کی دوکانوں پر پتھراو

¿ کرتے۔ سامنےجو بھی رکشاآتی اُس کو روک کر اُس کےرکشا ڈرائیور کو مارتے، رکشاکی کانچ پھوڑ دیتے، اُسےاُلٹ کر آگ لگا دیتے۔ خاص طور پر داڑھی والےڈرائیورس کو نشانہ بناتے۔ “ غصےسےاُس نےاپنےہونٹ بھینچے۔
یہ بھی کوئی طریقہ ہے‘ معاملہ معمولی سا ہے۔ ذاتی دُشمنی یا کسی اور وجہ سےقتل ہوا ہوگا ۔ اُسےفوراً سیاسی اور فرقہ ورانہ رنگ دےکر شہر کا امن غارت کیا جائےاور شہریوں کی جان و مال سےکھیلا جائے۔
اُس نےمصطفیٰ کےگھر دوپہر کا کھانا کھایا ۔
اور دوبارہ گھر فون لگانےکی کوشش کی ‘ لیکن فون بند ہونےکی وجہ سےرابطہ قائم نہیں ہوسکا ۔
ایک گھنٹےبعد اچانک رابطہ قائم ہوگیا ۔
یہاں بہت گڑبڑ ہے۔ “ بیوی بتانےلگی ۔ ” ہم بلڈنگ کےٹیرس پر گئےتھے‘ آس پاس ہزاروں لوگ جمع ہیں ۔ وہ حملہ کرنےکی تیّاریوں میں ہیں ۔ سامنےوالی مسجد پر پتھراو

¿ ہورہا ہے۔ اسلامی ہوٹل پر پتھراو

¿ کیا گیا تھا اور اُسےلوٹنےکی کوشش کی گئی تھی ۔ لیکن اُس ہوٹل کی گلی میں ہزاروں لڑکےجمع ہوگئےتھے۔ اُنھوں نےجوابی پتھراو

¿ کیا تو حملہ آور بھاگ گئے۔ لیکن دونوں طرف سےسخت نعرےبازی جاری ہےاور پتھراو

¿ بھی ہورہا ہے۔ حالات کبھی بھی بگڑ سکتےہیں ۔ آپ اِس طرف آنےکی قطعی جماقت مت کیجئے۔

رات میں بھی مصطفیٰ کےگھر ہی رُک جائیے۔
دیکھو اگر بلڈنگ کو خطرہ محسوس ہوتو تم بچوں کو لےکر اپنےمیکےچلی جانا ۔
ویسےتو بلڈنگ کو خطرہ نہیں ہےلیکن جس طرح سامنےلوگ جمع ہیں ‘ کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایسا کچھ ہوا تو میں اس سےپہلےہی بچوں کو لےکر میکےچلی جاو

¿ں گی ۔ “ بیوی نےجواب دیا ۔
بیوی کا میکہ زیادہ دُور نہیں تھا اور وہ گھر سےنسبتاً محفوظ راستوں پر تھا ۔ اِس لئےاُسےاِس بات کا اطمینان تھا ۔ بیوی بچوں کو لےکر آرام سےمیکےپہونچ جائےگی جو کافی محفوظ علاقہ ہے۔ لیکن اپنےگھر کا کیا ؟
کچھ گڑبڑ ہوئی تو اُسےلٹنےاور جلنےسےکوئی نہیں روک سکتا ۔ اُنھیں وہ مکان لئےآٹھ مہینےبھی نہیں ہوئےتھے۔ ساری زندگی کی کمائی ، زیورات اور بینک کا قرض لگا کر اُنھوں نےوہ مکان لیا تھا اور دھیرےدھیرےاُس میں ضرورت کی ہر چیزسجایا تھا ۔ اگر وہ لوٹ لیا گیا یا جلا دیا گیا تو ؟
اُس کا دِل تیزی سےدھڑکنےلگا اور ماتھےپر پسینےکو بوندیں اُبھر آئیں ‘مصطفیٰ نےٹی وی لگایا ۔
ٹی وی کےہر چینل پر شہر میں ہونےوالےہنگاموں کی خبریں آرہی تھی ۔ شہر میں ایک وکیل کےقتل کےبعد ایک سیاسی پارٹی کےورکروں کا شہر میں ہنگامہ ، پتھرراو

¿ اور توڑ پھوڑ ۔
پہلےاُس وکیل کا تعلق اس سیاسی پارٹی سےاس حد تک بتایا گیا کہ وہ اس پارٹی ،جماعت ،کےکیسوں کی پیروی کرتا تھا ۔
پھر خبروں میں اُس وکیل کو اِس سیاسی جماعت کا ورکربتایا گیا ۔
اور آخر میں اُسےاسی سیاسی جماعت کا صدر بنادیا گیا ۔
ایک سیاسی جماعت کےصدر وکیل کےقتل کےبعد شہر میں سخت تناو

¿ ، پتھراو

¿ کی وارداتیں ، دُکانیں لوٹنے، چھرےبازی کی وارداتیں ۔ امول کاٹیکر نامی ایک شخص کو ایک ہجوم نےمار مار کر اَدھ مرا کردیا ۔ شری پروویژن نامی دوکان جلادی گئی ،مہادیو میڈیکل لوٹ لی گئی ۔ “ جیسی خبریں ہر چینل دینےلگا اور تناو

¿ اور تشدد میں اضافہ کرنےلگا ۔
حالات سنگین ہوتےجارہےتھے۔ اُس کا دِل ڈوب رہا تھا ۔ اُسےلگا شہر بارُود کا ڈھیر بن چکا ہےاور اب وہ پھٹا ہی چاہتا تھا ۔ آنکھوں کےسامنےگجرات کےفسادات کےواقعات اور خبریں گھوم رہی تھیں ۔ لوگوں کو زندہ جلایا جانا ، چن چن کر لوگوں کو مارنا ، اُن کی اِملاک تباہ و برباد کرنا ، اُن کےمکانوں ، عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرنا ۔
اُسےایسا محسوس ہورہا تھا ‘ اگر ایسا ہی کچھ یہاں بھی شروع ہوگیا تو اس سےزیادہ خوفناک واقعات یہاں پیش آسکتےہیں ۔ ممکن ہےکچھ لوگ گجرات کا اِعادہ کرنا چاہیں تو کچھ گجرات کا بدلہ لینا چاہیں ۔ دونوں صورتوں میں جو کچھ ہوسکتاہےاس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔
اُس کا دِل ڈوبنےلگا اور آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا ۔ کیا یہی ہمارا مقدر بن گیا ہے؟
باہر لوگوں کی بھیڑ ٹولیوں کی شکل میں جگہ جگہ جمع تھی ۔ ہر کوئی پلان بنا رہا تھا ۔ اگر فساد شروع ہوگیا تو کیا کیا جائے۔ کچھ بچاو

¿ کی ترکیبیں سوچ رہےتھے۔تو کچھ لوٹ مار کا پلان بنارہےتھے۔ تو کچھ جوابی کاروائی اور حملہ کی منصوبہ بندی کررہےتھے۔جو لوگ اس جگہ کو غیر محفوظ سمجھ رہےتھےوہ اس جگہ کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں کی طرف جارہےتھے۔
کچھ جگہوں پر پولس کانام و نشان بھی نہیں تھا اور کچھ جگہوں کو پولس چھاو

¿نی میں تبدیل کردیا گیا تھا ۔ایسا کچھ لوگوں کی حفاظت کےلئےکیا گیاتھا ۔ تو کچھ علاقوں کےلوگوں کو پوری طرح آزاد چھوڑ دیا گیا تھا ‘ وہ جو چاہےکرسکتےہیں ، اُن کو روکنےوالا کوئی نہیں ہے۔ تو کچھ علاقوں کو اِس طرح سیل کردیا گیا تھا کہ ان مقاموں پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا ہےاور وہ کچھ نہیں کرسکتےہیں ۔
شہر سےناخوش گوار واقعات کی خبریں آرہی تھیں ۔
ہر خبر کےبعد ایسا محسوں ہوتا تھا جیسےحالات سنگین سےسنگین ہوتےجارہےہیں ۔ تناو

¿ اور تشدد جاری ہے۔ اُس نےکئی بار گھر فون لگانےکی کوشش کی لیکن رابطہ قائم نہیں ہوسکا جس کی وجہ سےاُس کی تشویش بڑھتی جارہی تھی ۔بیوی گھر میں اکیلی ہے، اُسےمیکےجانےکےلئےکہا تھا ۔ پتا نہیں وہ میکےگئی بھی یا نہیں ‘ اُسےمیکےچلےجانا چاہیئے، لیکن وہ جائےگی نہیں ، اُس کی جان اُس کےگھر میں اٹکی ہے۔
اِتنی مشکلوں ،اور مصیبتوں سےاُنھوں نےاپنا گھر بنایا تھا ، گھر کی ایک ایک چیز میں اپنا خون پسینہ لگایا تھا ۔ گھر کی ہر اینٹ میں اُن کےارمان ، خواب چنےہوئےتھے۔ بھلا وہ اِس گھر کو چھوڑ کر جاسکتی ہے؟ اُسےڈر ہوگا کہ اُس کےسارےیہ ارمان ، خواب جلا کر راکھ نہ کردئےجائیں ۔
لیکن اگر وہ ایسا سوچ رہی ہوگی تو وہ بےوقوف ہےاگر وہ گھر میں رہی تو نہ گھر کو بچا سکےگی اور نہ اپنےآپ کو نہ اپنےبچوں کو ۔
ایک اکیلی کمزور عورت بھلا کس طرح اپنےآپ کو بچا سکتی ہے۔ ہزاروں واقعات اس کےذہن میں گردِش کررہےتھے۔ ایسی عورتوں کو ہوس کا شکار بنا کر زندہ جلا دیا گیا بچوں کو سنگینوں اور ترشول سےچھید کر جلا دیا گیا ۔
نہیں ! “ بےساختہ اُس کےمنہ سےچیخ نکل گئی ۔
کیا ہوا ؟ “ مصطفیٰ نےچونک کر اُس سےپوچھا ۔
کچھ نہیں ‘ ایک بھیانک خواب دیکھ رہا تھا ۔
جاگتےہوئےبھی ؟ “ مصطفیٰ مسکرایا ۔
جو کچھ ہورہا ہے‘ وہ بھیانک خواب سےبھی بدتر ہے۔ ایسےمیں جاگنا اور سوناسب برابر ہے۔ “ اُس نےکہا ۔
مصطفیٰ اُس کی بات کو سمجھ نہیں سکا ۔
شام کو اُس نےطےکیا کہ وہ تھوڑی دُور تک حالات کا جائزہ لےکر آئےگا ۔
مصطفیٰ نےاُسےایسا کرنےسےروکا کہ وہ گھر جانےکی حماقت بھری کوشش نےکرے۔ لیکن اُس نےاُسےیقین دِلایا کہ وہ گھر جانےکی کوشش نہیں کرےگا ۔
تھوڑی دُور گیا تو اُسےایک شناسا مل گیا ۔
جاوید بھائی ! گھر جانےکی آپ کوشش نہ کریں ۔ اس میں بہت خطرہ ہے۔ آپ کا گھر جن راستوں پر ہےوہ خطروں سےبھرےہیں ‘ بہتر ہےکہ آپ رات یہاں ہی رُک جائیے۔ ویسےتو حالات معمول پر آگئےہیں لیکن کچھ کہا نہیں جاسکتا کب کیا ہوجائے۔
نہیں ! میں گھر جانا نہیں چاہتا ہوں بس یوں ہی تھوڑی دُور تک ٹہل کر واپس آجاو

¿ں گا ۔
ویسےاگر آپ محفوظ راستوں سےگھر جانا چاہیں تو جاسکتےہیں ۔ ان راستوں پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آئیےمیں آپ کو گھر چھوڑ دوں ۔
اُس نےموٹر سائیکل پر بٹھایا اور محفوظ راستوں سےوہ گذرنےلگے۔ ان راستوں اور محلوں سےگذرتےایسا محسوس ہورہا تھا جیسےوہاں بہت کچھ ہوا ہے۔ سیاسی لیڈر اور بزرگ بھیڑ کو سمجھا کر روکنےکی کوشش کررہےتھے۔
گھر کےقریب پہونچا تو پیچھےوالی گلی ہزاروں لوگوں سےبھری تھی ۔ جنھیں دو لیڈران سمجھا کر خود پر قابو رکھنےکےلئےکہہ رہےتھے۔
گھر آیا تو بیوی بھڑک اُٹھی ۔
اِتنا سمجھانےکےبعد بھی آپ نہیں مانے؟ جان خطرےمیں ڈال کر چلےآئے۔
نہیں ‘ ایک پہچان والا مل گیا تھا اُس نےمحفوظ راستوں سےموٹر سائیکل پر لاکر چھوڑا ۔
رات تک حالات معمول پر آگئےتھے۔
یہ طےتھا رات دہشت اور تناو

¿میںگذرےگی ۔
لیکن دہشت کا ایک دِن تو بیت گیا تھا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی
بھیونڈی۔۔421302
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

Contact:-

M.Mubin

303-Classic Plaza,Teen Batti

BHIWANDI-421 302

Dist. Thane ( Maharashtra)

Mobile:-09322338918

Email:-mmubin123@gmail.com






افسانہ

چھت

از:۔ ایم مبین

گھر آکر اس نےکپڑےاتارےبھی نہیں تھےکہ نسرین نےدبےلہجےمیں آواز لگائی ۔
پانی آج بھی نہیں آیا ۔ گھر میں پینےکےلئےبھی پانی نہیں ہے۔ “ نسرین کی بات سنتےہی جھنجھلا کر غصےسےاس نےنسرین کی طرف دیکھا پھر بےبسی سےپلنگ پر بیٹھ گیا ۔
اتنا بھی پانی نہیں ہےکہ آج کا کام چل جائے؟
نہیں …. ! “ نسرین نےدھیرےسےجواب دیا اور اپنا سر جھکا لیا ۔ ” اگر ایک کین بھی پانی مل جائےتو کام چل جائےگا ۔ کل پانی ضرور آئےگا ۔ اس وقت سامنےوالی آبادی میں پانی آتا ہے۔ جھونپڑ پٹی کی دوسری عورتیں وہاں سےپانی لارہی ہیں ۔
دوسری عورتیں وہاں سےپانی لا رہی ہیں لیکن تم نہیں لا سکتیں کیونکہ تم ایک وائٹ کالر جاب والےآدمی کی بیوی ہو ۔ “ اس نےسوچا اور پھر دھیرےسےبولا ۔
ٹھیک ہےکین مجھےدو میں پانی لاتا ہوں ۔
آفس سےآیا تو اتنا تھک گیا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ بستر پر لیٹ کر ساری دنیا سےبےخبر ہوجائے۔ لیکن نسرین نےجو مسئلہ پیش کیا تھا ایک ایسا مسئلہ تھا جس سےوہ دو دونوں سےآنکھ چرا رہا تھا ۔ اور اب اس سےآنکھ چرانا نا ممکن تھا ۔
اس گندی بستی کو جس پائپ لائن سےپانی سپلائی ہوتا تھا اس کا پائپ پھٹ گیا تھا اور تین دنوں سےنلوں میں پانی نہیں آرہا تھا ۔ شکایت کی گئی تھی لیکن جواب دیا گیا تھا کہ کام چل رہا ہے۔ کام ختم ہوجائےگا تو معمول سےایک گھنٹہ زیادہ پانی دیا جائےگا ۔ کام چیونٹی کی رفتار سےچل رہا تھا کب ختم ہوگا کوئی کہہ نہیں سکتا تھا اور کب پانی آئےگا کہا نہیں جاسکتا تھا ۔
جھونپڑ پٹی کا معاملہ تھا ۔ میونسپلٹی والےجھونپرپٹی والوں کو پانی سپلائی کرنےکی ذمہ داری نبھانےکےتابعدار نہیں تھے۔ کیونکہ ان کی نظرمیں وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی ہے۔ اس جھونپڑ پٹی میں غیر قانونی ڈھنگ سےرشوت دےکر نل کےکنکشن دئےگئےہیں ۔ میونسپلٹی چاہےتو ان تمام کنکشنوں کو کاٹ کر پانی کی سپلائی بند کرسکتی ہے۔ لیکن انسانیت کےناطےاس بستی کو پانی سپلائی کررہی تھی ۔ اس لئےاس بستی کےلوگوںکو میونسپلٹی والوں کا شکر گذار ہونا چاہئے۔ قانون کی زبان میں بات کرنےکےبجائےعاجزی سےدرخواست کرنی چاہیئے۔ تب میونسپلٹی کےاعلیٰ افسران ان کی پریشانیوں کےبارےمیں سنجیدگی سےغور کریں گے۔
ہاتھ میں بیس لیٹر پانی کا کین لےکر وہ کرانتی نگر کی پرپیچ گلیوں سےہوتا سڑک پر آیا اور سڑک پار کرکےدوسری بستی میں ۔ اس بستی میں وہ کوئی ایسا نل تلاش کرنےلگا جہاں اسےپانی مل سکے۔ ہر نل پر بھیڑ تھی ۔ نلوں پر پانی بھرنےوالی زیادہ تر کرانتی نگر کی عورتیں ہی تھیں ۔
ایک نل پر اسےایک شناسا عورت دکھائی دی ۔ اس نےاس کا کین بھر دیا تو وہ کین اٹھا کر گھر کی طرف چل پڑا ۔ بیس لیٹر کا کین اٹھا کر گھر کی طرف جانا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ بار بار ہاتھ شل ہوجارہےتھےاور توازن بگڑ رارہا تھا ۔ بگڑتےتوازن سےایسا لگتا جیسےوہ گر پڑےگا ۔
جب بھی ایسی صورت حال اسےمحسوس ہوتی وہ جلدی سےکین ہاتھ سےدوسرےہاتھ میں لےلیتا ۔ اس طرح شل ہوتےہاتھ کو بھی آرام مل جاتا اور اس کا توازن بھی برقرار رہتا ۔
خدا خدا کرکےوہ سڑک پار کرتا ہوا کرانتی نگر کی سرحد میں داخل ہوا ۔ اب اس کین کو گھر تک لےجانا سب سےبڑا امتحان تھا ۔ کرانتی نگر کی پر پیچ گلیاں ‘ جگہ جگہ بہتا گندی گٹروں کا پانی ، اونچےنیچےراستوں سےہوکر گذرنا کسی کرتب بازی سےکم نہیں تھا ۔ دل میں آیا کہ کین کو یا تو کاندھےپر رکھ لےیا پھر سر پر اٹھا لےلیکن خود اس بات پر شرماگیا کہ آس پاس کےلوگ اسےاس حالت میں دیکھیں گےتو ہنسیں گے۔
انور صاحب کین سر پر اٹھاکےپانی بھر رہےہیں ۔
اس لئےاس نےکین ہاتھوں میں لےجانا ہی مناسب سمجھا ۔
گندی گٹروں کےپانی اور اونچےنیچےتنگ راستوں پر وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھ رہا تھا ۔ مگر ساری محنت بےکار گئی ۔ اچانک ایک جگہ اس کا پیر پھسلا اور ہاتھ میں بیس لیٹر کا کین تھا وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا اور دھڑام سےگر گیا ۔ جہاں وہ گرا تھا اس جگہ گٹر کا گندہ پانی ابل کر جمع ہوا تھا ۔ وہ سارا بدبودار گندہ پانی اس کےجسم اور کپڑوں سےلپٹ گیا ۔
گرتےگرتےاس نےکین کو بچا لیا ۔ اس وقت وہ پانی اس کےلئےاپنی جان سےبھی زیادہ قیمتی تھا ۔ اس نےکین کو ایسےانداز میں اٹھائےرکھا کہ پانی نہ گرسکےاور وہ اس کوشش میں کامیاب رہا ۔ واپس اٹھ کر اس نےپانی کا کین اٹھایا اور گھر کی طرف چل دیا ۔ جسمکیکئیحصوں پرزخم آئےتھےاوروہ زخم انگارےبنےہوئےتھےلیکن اس کےباوجود وہ کین اٹھائےآگےبڑھ رہا تھا ۔
آس پاس کےلوگ اس کی حالت دیکھ کر ہنس دیتےاور اندازہ لگالیتےکہ اس کےساتھ کیا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ خوش تھا ۔ اسےاتنا پانی تو مل گیا کہ آج کا کام چل جائےگھر آکر اس نےکپڑےبدلےاور نہانےکےلئےبیٹھا تو یاد آیا کہ اس کےنہانےکےلئےپانی کہا ںہے۔ کفایت شعاری کا ثبوت دیتےہوئےاس نےایک دو لیٹر پانی سےاپنےجسم پر لگی گندگی صاف کی ۔
رات میں اس پر دوہرا عذاب مسلط تھا ۔ گرنےکی وجہ سےاس کےجسم پر جو خراشیں اور زخم آئےتھےوہ درد کررہےتھےاور بجلی بھی نہیں تھی ۔ گھر بھٹی بنا ہوا تھا ۔ ہاتھوں سےپنکھا جھل کر وہ اور نسرین گرمی دور کرنےکی کوشش کر رہےتھےلیکن پھر بھی آرام نہیں مل رہا تھا ۔ گھبرا کر وہ دروازےکےباہر چادر بچھا کر لیٹ گیا ۔ باہر اسےاندر کی بہ نسبت تھوڑا آرام محسوس ہوا ۔ لیکن پاس کی گٹر کی بدبو اس کا دماغ پھاڑ رہی تھی اور بھنبھناتےمچھر اسےکاٹتےتو اس کےمنھ سےسسکی نکل جاتی ۔
بجلی کب آئےگی کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا بجلی کےبنا نیند نہیں آئےگی ۔ کل ڈیوٹی جانا ہے۔ اگر وہ ٹھیک طرح سےسو نہیں سکا تو بھلا پھر ڈیوٹی کس طرح انجام دےگا ۔
یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ اکثر آدھی رات کو بجلی چلی جاتی تھی اور اسےاسی عذاب کو برداشت کرنا پڑتا تھا جس عذاب میں وہ اس وقت مبتلا تھا ۔ آنکھوں میں ساری رات گذرجاتی تھی ۔ لیکن بجلی نہیں آتی تھی ۔ سویرا ہوجاتا تو ڈیوٹی پر جانےکی تیاریاں کرنی پڑتی ۔ آنکھیں نیند سےبوجھل ہوتیں لیکن سو نہیں سکتےتھےکیونکہ ڈیوٹی جانا تھا ۔ آفس آتا تو نیند سےپلکیں بوجھل ہونےلگتیں ‘ کوئی کام نہیں ہوتا اور غلط سلط کام ہوتےتو باس کی ڈانٹیں سننی پڑتیں ۔
نسرین نےویسےتو اس سےکبھی سوال یا شکایت نہیںکی تھی کہ اس نےکرانتی نگر میں ہی گھر کیوں لیا ہے۔ کیونکہ وہ اس کی مجبوری جانتی تھی ۔ اسےموجودہ حالات میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں گھر مل ہی نہیں سکتا تھا ۔ کیونکہ اس میں کرانتی نگر کےعلاوہ کہیں اور گھر لینےکی مالی استطاعت نہیں تھی ۔
کبھی سوچتا کہ اس نےشادی کرنےمیں جلدی کرکےغلطی کی کرانتی نگر میں گھر لےکر کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ شادی دیر سےکرتا تو ان پریشانیوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا۔ نوکریملی تو سب سےپہلا مسئلہ ایک چھت کا پیدا ہوا ۔ ایک چھت کی شدت سےضرورت محسوس ہوئی جس کےنیچےسر چھپا سکے۔ دو چار دن اِدھر اُدھر گذار کر چھت کی تلاش شروع ہوئی ۔ اسےمحسوس ہوا نوکری اسےجتنی آسانی سےمل گئی تھی چھت اسےاتنی آسانی سےملنی ممکن نہیں تھی ۔
شہر میں اس کی طرح ہزاروں لاکھوں لوگ چھت کےمتلاشی ہیں اور وہ چھت کےلئےہزاروں لاکھوں روپےدینےکو تیار ہیں ۔لیکن اس کی استطاعت کےمطابق کرانتی نگر میں ہی چھت مل سکی ۔
کرانتی نگر ایک جھونپڑپٹی تھی ۔ کسی کی زمین پر ایک دادا نےناجائز قبضہ کرکےلکڑی کےٹکڑوں ، پتروں سےکئی جھونپڑےبنائےتھےاور انہیں کرائےپر دےرکھا تھا اور ان کا کرایہ وصول کرتا تھا ۔ وہ جھونپڑپٹی غیر قانونی تھی اور کبھی بھی ٹوٹ سکتی تھی ۔ لیکن داو

¿سالوں سےسن رہا ہوں کہ جھونپڑپٹی ٹوٹنےوالی ہےمگر ابھی تک نہیں ٹوٹ سکی اور اب مجھےیقین ہےآئندہ دس سالوں تک یہ جھونپڑپٹی نہیں ٹوٹ سکتی ۔
اس نےکرانتی نگر میں کھولی داو

¿

¿میں کھولی چاہیئےتو داو

¿
وہ داو

¿علاقےمیں روم چاہتےہیں ‘ روم تو مل جائےگا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقہ آپ کےلئےمناسب نہیں ہے۔ میں آپ کی مجبوریوں کو سمجھتا ہوں ۔ مجھےعلم ہےآپ کس مجبوری کےتحت اس جھونپڑپٹی میں کھولی لےرہےہیں ۔ آپ جیسےکئی لوگ اس سےقبل اسی مجبوری کےتحت یہاں سال دو سال رہ کر گئےہیں ۔ سال دو سال میں ان کےپاس پیسہ جمع ہوگیا انہیں اچھی جگہ اس سےاچھا روم مل گیا پھر وہ یہ بستی چھوڑ کر چلےگئے۔ انور بھائی آپ گھبرائیےنہیں ۔ آپ بھی ایسا کیجئے۔ ابھی وقتی طور پر یہ روم لےلیجئے۔ بعد میں اس سےاچھا روم مل جائےگا تو اسےچھوڑ دیجئے۔
دس ہزار روپےڈپازٹ اور ڈھائی سو روپےمہینہ پر اسے٢١xجس کی چھت پترےکی تھی ۔ نل اور بجلی کا اس میں انتظام تھا ۔ دس ہزار روپےاس نےگھر والوں سےقرض کےطور پر حاصل کئےاور کمرہ لےلیا وہ کمرہ لےکر وہاں رہنےلگا تو اسےوہاں پر کچھ بھی اجنبی نہیں لگا۔ ویسےبھی وہ سویرےجو آفس جاتا تو شام کو ہی گھر آتا تھا ۔ اپنی چھت کےنیچےسر چھپانےکےلئے۔ دن بھر وہاں کیا ہورہا ہے۔ اسےکچھ پتہ نہیں چلتا تھا ۔ رات میں کبھی کبھی آس پاس کےلوگوں کےساتھ ایک آدھ گھنٹہ بیٹھ کر بستی کی خیر و خبر معلوم کرلیتا ۔ یا بستی میں ہونےوالےجھگڑوں کو تماشائی بن کر دیکھ لیتا تھا ۔
کبھی پانی کی گٹر پر سےبھیکو اور چندو کا جھگڑا ہوگیا ۔ کبھی بھولو دتا رام سےبلاوجہ الجھ گیا ۔ کبھی دشرتھ رات میں شراب پی کر آیا اور اس نےساری بستی کو سر پر اٹھا لیا ۔ کاشی رام کی بیوی کو جادھو نےچھیڑا تھا اس لئےغصےمیں کاشی رام نےجادھو کو استرا مار دیا۔ دھوترےکی بیوی اپنےسےدس سال چھوٹےلڑکےکےساتھ بھاگ گئی ۔ واگھمارےکی بیوی کالو کےبستر میں رنگےہاتھوں پکڑی گئی ۔ شراب کےنشےمیں دھت اشوک سریش کےگھر میں گھس گیا اور اس کی بیوی کےساتھ زبردستی کرنےکی کوشش کی ۔
وہ ساری باتیں بڑی دلچسپی سےسنتا اور ان سےلطف اندوز ہوتا تھا ۔ اس کا اس جگہ دل لگ گیا تھا ۔ پھر گھر والوں کو اس کی شادی کی سوجھی اور وہ بھی شادی کےلئےتیار ہوگیا ۔ گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ کب تک ہوٹل میں

کھاتا رہےگا ۔ بیوی گھر آجائےگی تو یہ مسئلہ بھی حل ہوجائےگا اور اسےاس اجنبی شہر میں ایک ساتھی مونس و غمخوار بھی مل جائےگا ۔
شادی ہوگئی ۔ نسرین گھر میں آئی اور جیسےاس پر مسائل نےایک ساتھ حملہ کردیا ۔ شادی کےبعد اسےمعلوم ہوا تھا کہ بستی میں کبھی کبھی تین تین دنوں تک پانی نہیں آتا ہے۔ اور بستی کےلوگو ںکو پانی کےلئےمارےمارےپھرنا پڑتا ہے۔
مٹی کا تیل کتنی مشکلوں سےملتا ہے۔ اس سےتو اسٹو جلتا ہےجس پر کھانا پکتا ہے۔ اگر وہ نہ ملےتو اسٹو نہیں جل سکتا اور کھانا بھی نہیں پک سکتا تھا اور نمک لانےکےلئےداو

¿سبزی مارکیٹ تک جانا پڑتا ہے۔ سبزی مارکیٹ میں ہی تازہ سبزیاں ملتی ہیں ۔ کرانتی نگر میں جو سبزیاں ملتی ہیں وہ باسی اور مہنگی ہوتی ہیں ۔ اگر اچانک کوئی بیمار ہوجائےتو دن میں بھی کرانتی نگر میں ڈاکٹر نہیں ملتا ہے۔ ڈاکٹر کےلئےشہر جانا پڑتا ہی۔ دن میں شرابی آوارہ بدمعاش گھروں میں گھس جاتےہیں اور گھر کی عورتوں کو چھیڑتےہیں ۔ غنڈےبدمعاشوں کی تلاش میں کبھی کبھی پولس بستی میں آتی ہےتو بستی کی عورتوں کےساتھ نازیبا برتاو

¿
ان تمام مسائل میں سےکچھ کےحل نکل آئےتھےکچھ کےحل باقی تھے۔ جب کبھی نسرین اسےبتاتی کہ آج ایک شرابی گھر میں گھس آیا تھا تو وہ سر سےپیر تک پسینےمیںنہا جاتا تھا ۔ اس کا حل تو نکل آیا تھا ۔ اس نےآس پاس کی عورتوں کو کہہ دیا تھا کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ نسرین کا خیال رکھیں ۔ وہ اتنی مخلص تھیں کہ نسرین کی ایک آواز پر دوڑی آتی تھیں ۔ اس طرح نسرین کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا ۔
زندگی کسی طرح طرح گذر رہی تھی کہ اچانک ایک نئی مصیبت کھڑی ہوگئی ۔ جس شخص کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکےوہ جھونپڑا بستی بسائی تھی ۔ اس کےغنڈےآکر لوگوں کو تنگ کرنےلگےکہ وہ لوگ جھونپڑےخالی کردیں ورنہ وہ ان کےساتھ سختی سےپیش آئیں گے۔ اس شخص نےشاید میونسپلٹی والوں کو بھی ہموار کردیا تھا ۔ اس لئےاکثر میونسپلٹی کےچھوٹےبڑےآفیسر ، ملازمین آکر بستی والوں کو دھمکیاں دیا کرتےتھےکہ وہ بستی خالی کردیں ۔ کیونکہ یہ ایک ناجائز بستی ہے۔ میونسپلٹی کبھی بھی آکر اس بستی کو بل ڈوزر سےمسمار کردےگی ۔ بستی میں زیادہ تر جاہل ان پڑھ لوگ تھے۔ جو قانون کی زبان نہیں سمجھتےتھےاور جو پڑھےلکھےتھےاس جھمیلےمیں پڑنا نہیں چاہتےتھے۔
اسےبھی فکر لاحق ہونےلگی کہ اگر کسی دن میونسپلٹی نےبستی توڑ دی تو اس کےدس ہزار روپےڈوب جائیں گےجو اس نےڈپازٹ کی صورت میں دئےہیں ۔ اس سلسلےمیں داو

¿

¿سےڈپازٹ لیا ہےجو کرایہ وصول کرتا ہےاور جس نےیہ بستی بسائی ہےوہ بھی مانا ہوا غنڈہ ہے۔ زمین کےمالک کےچھوڑےہوئےغنڈوں سےوہ نپٹ لےگا ۔ جہاں تک میونسپلٹی والوں کا سوال ہےان کو اس طرح کی قانون کی زبان استعمال کرنےکا حق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جھونپڑپٹی نجی زمین پر آباد ہےسرکاری زمین پر نہیں ہے۔ اس لئےمیونسپلٹی اسےتوڑ نہیں سکتی پھر جس میونسپلٹی کےملازمین نےرشوت لےکر اس بستی کےنل کنکشن دئے۔ بجلی کےکنکشن دئےوہ قانون اور غیر قانون کی بات کس طرح کرسکتےہیں ۔ داو

¿

¿واپس لےکر کھولی خالی کردیں ۔
وہ کھولی خالی نہیں کرسکتا تھا ۔ کیونکہ دوسری جگہ گھر کا انتظام ناممکن تھا اس کےپاس اتنا پیسہ نہیں تھا ۔ پھر وہ اپنےآپ کو اس چھت کےنیچےبہت محفوظ سمجھتا تھا ۔ وہ اپنےلئےاتنی جلدی دوسری چھت کا انتظام نہیں کرسکتا تھا پھر بھلا یہ چھت کس طرح چھوڑ سکتا تھا ۔
ان مسائل کو دیکھتےہوئےاس نےطےکر لیا تھا کہ وہ اب جلد ہی یہ جگہ چھوڑدےگا ۔ یہ جگہ اس کےجیسےشریف آدمی کےلائق نہیں ہے۔ اس نےدوسری جگہ تلاش کرنی شروع بھی کردی تھی اور پیسو ں کا انتظام کرنا بھی شروع کردیا تھا ۔ ایک رات ایک شور سن کر اس کی آنکھ کھلی تو وہ اچانک گھبرا گئے۔ انہیں لگا جیسےان کا کمرہ جہنم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ وہ گھبرا کر جب باہر آئےتو انہوں نےدیکھا کہ پوری بستی شعلوں میں گھری ہوئی ہےلوگ اپنی اپنی جانیں بچا کر بھاگ رہےہیں ۔ اپنی متاع زندگی کو آگ سےبچانےکی کوشش کررہےتھے۔
آگ بڑھتی جارہی ہے۔ کیونکہ بستی کےمکان کچےتھےاس لئےاس آگ کو بڑھنےسےکوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ آگ بجھانےکےلئےفائر بریگیڈ کو فون کیا گیا تھا۔لیکن اس کا بھی نام و نشان نہیں تھا ۔ شاید یہ بھی آگ لگانےوالوں اور فائر بریگیڈ کی ملی بھگت تھی ۔
آگ ان کےگھرکی طرف بڑھ رہی تھی ۔ اس لئےانہوں نےاپنی متاع زندگی کو بچانےکی کوشش شروع کردی ۔ ابھی تھوڑا سا سامان ہی بچا پائےتھےکہ آگ نےان کےگھر کو اپنی لپیٹ میں لےلیا اور دیکھتےہی دیکھتےان کا گھر جل کر خاک ہوگیا ۔
وہ دور میدان میں اپنا تھوڑا سا بچا ہوا سرمایہ

¿ جس سےدھواں اٹھ رہا تھا ۔ وہ حسرت سےکبھی اس جلی ہوئی بستی کو دیکھتےتو کبھی آسمان کو ۔
ان کےسر کی چھت چھینی جا چکی تھی ۔
اب ان کےسر پر صرف آسمان کی چھت تھی ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ(مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Brain Tumer By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Brain Tumer, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

برین ٹیومر

از:۔ایم مبین

جب ہوش آیا تو اس نےخود کو ایک سڑک کےکنارےایک درخت کےنیچےبیٹھا ہوا پایا۔ سامنےتارکول کی سڑک پر دور دور تک دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔ اکا دکا سواریاں آجا رہی تھے۔ آس پاس کی فلک بوس عمارتوں کی بالکنیاں ویران تھیں ۔ دھوپ کی شدت کی وجہ سےشاید مکین ان سےجھانکنےکی جسارت بھی نہیں کررہےتھے۔
سڑک کی دونوں طرف دور دور تک دکانوں کا ایک سلسلہ تھا ۔ ان میں کچھ دوکانیں بند تھیں لیکن باقی کھلی ہوئی تھیں ۔ بند دوکانوں کےشیڈ میں ایک دو آوارہ کتےدھوپ اور گرمی سےبچنےکےلئےلیٹےہوئےتھے۔ یا اکا دکا راہ گیر ان کےسائےمیں کھرےہوکر سستا رہےتھے۔ کبھی کبھی ان کی بےچین نظریں بار بار ویران سڑک کی طرف اٹھ جاتی تھیں ۔ شاید انہیں اپنی سواری کا انتظار تھا ۔
جو دوکانیں کھلی ہوئی تھیں ان میں گاہکوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا ۔ ان دوکانوں میں ان دوکانوں کےمالک اور ان میں کام کرنےوالےنوکر بیٹھےیا تو اونگھ رہےتھےیا منہ پھاڑ کر جماہیاں لےرہےتھے۔
وقت معلوم کرنےکےلئےاس نےاپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی تو اس کا دل دھک سےرہ گیا ۔ کلائی پر گھڑی نہیں تھی ۔
کلائی پر بندھی گھڑی نہ دیکھ کر یاد آیا کہ اس کےپاس ایک چھوٹی سی اٹیچی بھی تھی ۔جس میں دوپہر کےکھانےکا ڈبہ ‘ ایک دو غیر ضروری فائل ‘ کچھ اخبارات اور رسالےاور کچھ نوٹس وغیرہ تھے۔
وہ اٹیچی اسےکہیں نظر نہیں آئی ۔ اس کا مطلب تھا وہ اٹیچی بھی گھڑی کی طرح غائب ہے۔ لاشعوری طور پر اس کا ہاتھ پتلون کی جیب کی طرف رینگ گیا اور وہ جیب میں پرس تلاش کرنےلگا ۔
ظاہر سی بات ہےایسی حالت میں جیب میں پرس کی موجودگی ناممکن سی بات تھی ۔ اس نےایک ٹھنڈی سانس لی اور پتلون کی چور جیب میں اپنی انگلیاں ڈالیں اس کی انگلیاں نوٹوں سےٹکرائیں تو اسےکچھ اطمینان ہوا ۔
پرس میں دس بیس روپیوں کےنوٹ ‘ کچھ وزیٹنگ کارڈ اور لوکل کا ماہانہ پاس تھا۔
دھیرےدھیرےاسےیاد آنےلگا کہ جب وہ گھر سےآفس جانےکےلئےنکلا تھا تو سر میں ہلکا ہلکا درد تھا ۔ جو وقت گزرنےکےساتھ ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا ۔ اسےاچھی طرح یاد ہےوہ وی ٹی جانےوالی لوکل ٹرین میں سوار ہوا تھا ۔ لیکن پھر ٹرین سےیہاں کس طرح پہنچا ؟ اسےکچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔
مگر یہ جگہ کون سی ہے؟
اس سوال کےذہن میں سر اٹھاتےہی اس نےسامنےوالی دوکانوں کےسائن بورڈ غور سےدیکھے۔
تم میں اس وقت گھاٹ کوپر میں ہوں ۔ “ بڑبڑاتےہوئی اس نےاپنےہونٹ بھینچےاور پھر آسمان کی طرف دیکھنےلگا ۔ سورج جس زاویےپر رکا ہوا تھا اس سےتو ایسا لگ رہا تھا کہ اس وقت دوپہر کا ایک یا ڈیڑھ بج رہا ہوگا ۔
وہ ممبرا سےآٹھ بجےلوکل میں سوار ہوا تھا ۔
اس کا مطلب ہےوہ چار ‘ پانچ گھنٹےمدہوشی کےعالم میں رہا ۔
جسم پر کوئی خراش کا نشان نہیں تھا ۔ اس کا مطلب ہےآج اس کےساتھ کوئی حادثہ پیش نہیں آیا ۔
بس کچھ گھنٹوں کےلئےاس کےدماغ کا جسم سےرابطہ ٹوٹا اور اس درمیان جسم نےکیا کیا ‘ کیا اور اس کےساتھ کیا ہوا اسےکچھ یاد نہیں آرہا تھا ۔ اور اب یاد آبھی نہیں سکتا تھا ۔
اسےعلم تھا دماغ سےجسم کا رابطہ ٹوٹتےہی وہ لوکل سےاتر گیا ہوگا اور یونہی انجان سڑکوں پر بےمقصد آوارہ گردی کررہا ہوگا ۔ یا تو پھر چکرا کر اسی جگہ گرپڑا ہوگا جس جگہ اس وقت بیٹھا ہے۔ یا پھر مدہوشی میں عجیب و غریب مجنونانہ حرکتیں کرکےلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہوگا ۔
اس کی مجنونانہ حرکتیں اور اس کےہاتھ کی اٹیچی کسی غنڈےکی توجہ کا مرکز بنی ہوگی ۔
غنڈےنےبڑےاطمینان سےاسےاس جگہ بٹھایا ہوگا جہاں اس وقت وہ بیٹھا ہوا ہے۔ بڑےاطمینان سےاس نےاس سےایک دو باتیں کی ہوں گی اور اس کی کلائی سےگھڑی اتاری ہوگی پھر جیب سےپرس نکالا ہوگا اور ہاتھ سےاٹیچی لےکر اطمینان سےچلتا بنا ہوگا ۔ وہ چپ چاپ اسےجاتا دیکھ رہا ہوگا یا پھر درخت کےسائےمیں لیٹ گیا ہوگا ۔ کیا ہوا ہوگا ؟ اس بات کا وہ صرف اندازہ ہی لگا سکتا تھا ۔ اس کےساتھ کیا ہوا ہے؟ کسی سےمعلوم بھی نہیں ہوسکتا تھا ۔ مگر جو کچھ اس کےساتھ ہوا اسےاس کا بہت افسوس تھا ۔
آج اسےپھر گھر والوں اور بیوی کو اپنےلٹنےکی ایک فرضی کہانی سنانی پڑےگی لیکن وہ کل آفس میں کیا جواب دےگا ؟ بنا اطلاع کےوہ آفس سےکیوں غائب رہا ۔ اسی طرح پہلےہی اس کی بےشمار چھٹیاں ہوچکی تھیں ۔ اور آج تو آفس میں اس کی موجودگی بےحد ضروری تھی ۔
اس کی غیر حاضری سےآفس میں ہنگامہ مچ گیا ہوگا ۔
ڈیڑھ دو ہی بج رہےہیں ۔ کیا کریں ؟ آفس جانےکا اب بھی وقت ہے۔
لیکن وہ اپنےآپ کو جسمانی طور پر اتنا لاغر اور تھکا ہوا محسوس کررہا تھا کہ نہ تو اس میں آفس جانےکی قوت تھی نہ گھر واپس جانےکی ۔ لیکن آفس بھی نہ جائےاسےواپس گھر تو جانا ہی پڑےگا ۔
وہ اٹھا اور بوجھل قدموں سےاسٹیشن جانےکا راستہ ڈھونڈتا اسٹیشن کی طرف چل دیا ۔ راستےمیں اس نےایک گاڑی والےکےپاس سےوڑا پاو

¿ کھایا اور چائےپی ۔
کچھ دیر قبل جس بھوک کی شدت سےاسےکمزوری کا محسوس ہورہی تھی وہ کچھ دور ہوئی ۔ اس کےذہن میں ایک ہی بات گونج رہی تھی ۔
آج پھر اس پر دورہ پڑا تھا ۔ اور یہ دورہ پانچ چھ گھنٹوں کا تھا ۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا ممکن ہےشروعات میں اس طرح کےدورےکچھ گھنٹوں تک محدود رہیں لیکن یہی صورت حال رہی تو یہ دورےکئی کئی دن اور کئی کئی مہینوں کےبھی ہوسکتےہیں ۔ یعنی وہ کئی کئی مہینوں تک زندہ ہوتےہوئےبھی مردوں سا رہےگا ۔ مہینوں ایسی زندگی گزارسکتا ہےجس کا اس کی اصلی زندگی سےکوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ اس کی اصلی زندگی کی کوئی بات اسےیاد نہیں آئےگی ۔ اور بعد میں اس لا تعلق زندگی کی کوئی بات بھی اسےیاد نہیں آئےگی ۔ اور ایسا بھی ہوسکتا ہےاس طرح کےدوروں کےدرمیان وہ ٹیومر پھٹ جائےاور اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔
آخر وہ پھٹ کیوں نہیں جاتا ؟ “ وہ جھنجھلا کر سوچنےلگا ۔ ” اسےپھٹ جانا چاہئیے۔ اس کےپھٹ جانےسےمجھےاس کربناک زندگی سےنجات تو مل جائےگی ۔
تم مرنا چاہتےہو ؟ “ اس کےاندر کوئی زور سےہنسا ۔ ” نہیں ‘ تم مر نہیں سکتےتم مرنےسےڈرتےہو ۔ تم مرنا نہیں چاہتےہو ۔ اسی لئےتو تم اپنا علاج نہیں کروا رہےہو ۔ کیونکہ ممکن ہےعلاج کےدوران تمہاری موت واقع ہوجائے۔ یا تم زندگی بھر کےلئےاندھے‘ لنگڑے‘ لولے‘ اپاہج ہوجاو

¿ ۔ یا تمہارا ذہن ہمیشہ کےلئےایک کبھی نہ چھٹنےوالی تاریکی میں ڈوب جائے۔ اور تم ہوش میں رہتےہوئےبھی ہمیشہ کےلئےبےہوش ہوجاو

¿ ۔
آخر وہ ان دوروں کا عذاب کب تک جھیلتا رہےگا ؟
شاید موت ہی اسےاس عذاب سےنجات دلا سکتی ہے۔ لیکن موت کب آئےگی ؟ جب اس کےدماغ کا ٹیومر پھٹ جائےگا ۔
اس کےدماغ کا ٹیومر کب پھٹےگا ؟
اس بارےمیں تو نہ کوئی بتا سکتا تھا اور نہ کوئی پیشن گوئی کرسکتا ہے۔ ممکن ہےابھی ایک سیکنڈ بعد وہ ٹیومر پھٹ جائےیا پھر ہوسکتا ہےزندگی بھر وہ ٹیومر نہ پھٹےاور زندگی بھر وہ اس عذاب میں مبتلا رہے۔
اسےتو اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ اس کےدماغ میں کوئی ٹیومر بھی ہے۔ جسےعرف عام میں برین ٹیومر کہتےہیں ۔ ہاں یہ بات ضرور تھی کہ بچپن سےوہ درد سر کا مریض تھا ۔ اور بڑھتی عمر کےساتھ ساتھ وہ درد بڑھتا ہی گیا ۔ اور وہ اس کربناک عذاب میں مبتلا رہا ۔
بچپن میں جب اس کا سر درد کرتا تو وہ اس درد کا بہانہ بنا کر اسکول سےچھٹی لےلیتا تھا ۔ اس کےٹیچر اس کےچہرےکےتاثرات اور کیفیت دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیتےتھےکہ سچ مچ اس کےسر میں سخت درد ہےاور وہ اسےچھٹی دےدیتےتھے۔ اس وقت وہ بہت خوش ہوتا تھا اور سوچتا تھا روزانہ اس کا سر دکھا کرےاور اسےروزانہ اسی طرح اسکول سےچھٹی ملتی رہے۔
لیکن بڑھتی عمر کےساتھ بڑھنےوالی اس سر درد کی تکلیف سےاسےکوفت ہونےلگی تھی۔ اس نےاس مرض کی کئی ڈاکٹروں سےدوائیں لیں ۔ ڈاکٹروں کی دواو

¿ں سےوقتی طور پر درد غائب ہوجاتا ۔ لیکن کچھ دنوں بعد پھر معمول کےمطابق سر اٹھاتا ۔
اس کی دائمی سر درد کی شکایت دیکھ کر ڈاکٹروں نےاسےمائیگرین کا مریض قرار دیا ۔ مائیگرین جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ خود کو مائیگرین کا مریض قرار دئےجانےکےبعد اسےکم سےکم اس بات کا اطمینان تو ہوگیا کہ ا ب اسےدواو

¿ں کا استعمال کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک ایسےمرض میں مبتلا ہےجس پر دوائیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں ۔
اس نےاپنےاندر درد کی شدت کو برداشت کرنےکی قوت پیدا کی ۔ یہ سلسلہ برسوں تک چلتا رہا ۔ جب بھی اس کےسر میں درد اٹھتا وہ نہ تو اس کا علاج کرتا نہ کوئی دوا گولی لیتا ۔ چپ چاپ اس درد کو برداشت کرتا ۔ کچھ گھنٹوں کےبعد وہ درد خود بخود غائب ہوجاتا ۔ لیکن دھیرےدھیرےاسےپتہ چلا جب وہ شدید سر درد میں مبتلا ہوتا ہےتو کبھی کبھی بڑی عجیب حرکتیں کرنےلگتا ہے۔ جس کی وجہ سےلوگوں کو اس کےبارےمیں تشویش ہونےلگتی ہے۔
اس بارےمیں اسےاس کےدوستوں اور آفس کےلوگوں نےبتایا تھا کہ کئی کاغذات پرزہ پرزہ کرڈالےاور کورےکاغذات کو برےسلیقےسےفائلوں میں لگا کر رکھ دیا ۔ کئی اہم کاغذات پر بلا وجہ غیر ضروری اسٹامپ لگا کر اپنےدستخط کردئے۔ تو کبھی کبھی اخبارات اور آفس کےکاغذات پر گھنٹوں پتہ نہیں کیا اول فول ٹائپ کرتا رہا ۔
اس کی ان حرکتوں سےلوگوں نےاندازہ لگایا کہ اس پر عجیب قسم کےشیدد دورےپڑتےہیں ۔ دورےپڑنےکی شکایتیں اس سےکئی بار اس کےگھر والوں اور دوستوں نےکی تھیں ۔ دوروں کی حالت میں وہ چاول کو پانی کی طرح پینےلگتا اور پانی کو روٹی کی طرح کھانےکی کوشش کرتا ۔ گھر کی چیزیں غلط مقامات پر رکھتا یا ان کا غلط استعمال کرتا ۔
ایک بار تو ان حرکتوں سےاس کی زندگی خطرےمیں پڑ گئی تھی ۔اس نےمٹی کا تیل اپنےجسم پر ڈال لیا اور پانی سمجھ کر مٹی کا تیل پی لیا ۔ معمول پر آنےکےبعد اسےاپنےدوروں کی تفصیل معلوم ہوتیں تو اس کےجسم میں خوف کی سرد لہریں دوڑنےلگتیں ۔آج اس کےساتھ کیا ہوجاتا ۔
اف ! وہ کس طرح کی زندگی گزارر ہا ہے۔ آخر ان دوروں سےمجبور ہوکر اسےڈاکٹر کی صلاح لینی پڑی ۔ ڈاکٹر نےاس کی پوری کیس ہسٹری سنی ‘ سر کا ایکسرےنکالا ۔ اچھی طرح چیک اپ کیا اور اس کےبعد اسےبتایا گیا ۔

تمہارےدماغ میں ایک ٹیومر ہےاور اس کی وجہ سےتم اس طرح کی حرکتیں کرتےہو یا تمہارےساتھ ایسا ہوتا ہے۔ “ ڈاکٹر نےاسےبڑی تفصیل سےاس برین ٹیومر یا اس بیماری کےبارےمیں بتایا تھا ۔ اس کےسر میں درد اس لئےہوتا تھا کہ اس ٹیومر کی وجہ سےدماغ کےکچھ حصوں کو خون کی سپلائی رک جاتی تھا ۔
جیسےجیسےٹیومر بڑا ہونےلگا درد کی شدت بھی بڑھنےلگی ۔ اور اب صورت حال یہ ہےکہ جب دماغ کےبہت بڑےحصےکو خون کی سپلائی رک جاتی ہےتو دماغ اور جسم کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ اور وہ اس حالت میں اول جلول حرکتیں کرنےلگتا ہے۔
اس کا کوئی علاج ہےڈاکٹر صاحب ؟
اس کا تو بس ایک ہی علاج ہے۔ آپریشن کےذریعہ سر سےاس ٹیومر کو نکال دیا جائے۔ “ ” میں اس عذاب سےنجات پانےکےلئےآپریشن کرانےکےلئےبھی تیار ہوں ڈاکٹر صاحب ! “
لیکن یہ آپریشن اتنا آسان نہیں ہےجتنا تم سمجھ رہےہو ۔ معاملہ دماغ کا ہےممکن ہےیہ آپریشن کامیاب نہ ہو اور اس آپریشن کےدرمیان تمہاری موت واقع ہوجائےیا یہ بھی ممکن ہےآپریشن کےدوران تمہارےدماغ کا کوئی حصہ متاثر ہوجائےاور تم زندگی بھر کےلئےاندھے‘ لنگڑے‘ لولےیا اپاہج بن جاو

¿ ۔ تمہاری آنکھوں کی بینائی کھو جائے۔ یا تمہاری قوتِ گویائی صلب ہو جائے۔ یہ بڑا پرخطرآپریشن ہوتا ہے۔ اگر آپریشن کےدوران دماغ کا کوئی بھی حصہ معمولی طور پر بھی متاثر ہوجائےتو وہ اپنا کام بند کردیتا ہےاور اس کےاثرات کیا ہوسکتےہیں میں تو بتا ہی چکا ہوں ۔
نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب ! “ ڈاکٹر کی بات سن کر وہ کانپ اٹھا تھا ۔ ” میں مرنا نہیں چاہتا ۔ میں اندھا ‘ لنگڑا ‘ لولا ہوسکتا ہوں ۔ نہیں نہیں میں آپریشن نہیں کروں گا ۔ چاہےمجھےکتنا ہی درد کتنی ہی تکلیف سہنی پڑے۔ چاہےمجھےکتنےہی شدید دوروں کےعذاب سےگزرنا پڑے۔ اگر میرےدماغ کا ٹیومر پھٹ جاتا اور میری موت ہوجاتی ہےتو مجھےوہ موت منظور ہےکیونکہ وہ میری فطرتی موت ہوگی ۔ لیکن آپریشن کرکےنہ تو میں غیر فطری زندگی جینا چاہتا ہوں نہ غیر فطری موت مرنا چاہتا ہوں ۔
ڈاکٹر نےاسےبہت سمجھایا لیکن اس نےڈاکٹر کی ایک نہ مانی ۔ اس نےکسی کو نہیں بتایا کہ اس کےدماغ میں ایک ٹیومر ہےاور اسی ٹیومر کی وجہ سےاس عذاب میں مبتلا ہے۔ اور ممکن ہےوہ ٹیومر ایک دن اس کی جان بھی لےلے۔ ظاہر سی بات تھی وہ گھر والوں یا دوستوں کو اپنی بیماری کےبارےمیں بتاتا تو وہ اس کی جان بچانےکےلئےاسےزندہ دیکھنےکےلئےاس پر آپریشن کےلئےزور ڈالتے۔ اور آپریشن کا انجام کیا ہوسکتا ہےاسےعلم تھا ۔
اس لئےاس نےاپنی بھلائی اسی میں سمجھی کہ اپنےمرض کےبارےمیں کسی کو نہ بتایا جائی۔ اور اس طرح ہر طرح کےدباو

¿ سےآزاد رہ کر کچھ دنوں کی ہی سہی لیکن باقی بچی زندگی تو وہ چین سےگذار سکے۔ ا س کےبعد اس کےساتھ وہی ہوتا رہا جو پہلےہوتا آرہا تھا۔ کبھی کبھی درد کی شدت اتنی بڑھ جاتی کہ وہ دیواروں سےاپنا سر ٹکراکر لہولہان کرلیتا تھا ۔ کبھی کبھی دورےکی حالت میں اس کےہاتھوں سےایسےکام سرزد ہوجاتےتھےجن کےنقصان کی تلافی وہ مہینوں تک نہیں کرپاتا تھا ۔ اسےآفس سےکئی میمو مل چکےتھے۔ کیونکہ وہ دورےکی صورت میں آفس کےکئی ضروری کاغذات پھاڑ چکا تھا ۔
ایک بار اس کےباس نےاس کےدوروں سےعاجز آکر اسےمیمو دےدیا کہ وہ پندرہ دن کےاندر اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کرےورنہ اسےملازمت سےبرطرف کردیا جائےگا ۔ ملازمت سےبرطرفی کےتصور سےہی وہ کانپ اٹھا ۔ اگر اسےنوکری سےنکال دیا گیا تو وہ کیا کرےگا ‘ کون اسےنوکری دےگا ‘ ایسی حالت میں کیا وہ کوئی دوسرا کام کرپائےگا ‘ اس کےگھر والوں اور بیوی بچوں کا گذر کس طرح ہوگا ۔ مجبوراً اسےاپنی نوکری بچانےکےلئےایک ڈاکٹر کو رشوت دےکر اپنی فٹنیس کا جھوٹا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا پڑا ۔ تب سےوہ بہت ڈرتا تھا ۔اور رات دن خدا سےدعا کرتا تھا کہ کم سےکم اپنےآفس میں دورہ نہ پڑے۔ اگر پڑےبھی تو اس کےہاتھوں کوئی ایسا کام نہ ہو جس سےاس کی ملازمت پر آنچ آئے۔ لیکن یہ اس کےبس میں کہاں تھا ۔ اگر یہی بات اس کےبس میں ہوتی تو اس کےلئےکوئی مسئلہ ہی نہیں تھا ۔
کئی بار ایسا ہوا کہ دورےکی حالت میں بھٹکتا وہ پتہ نہیں کہا سےکہاں پہونچ گیا یا کسی سواری سےٹکرا کر سخت زخمی ہوگیا ۔ دورےکی حالت میں اس کا سامان کہاں گر گیا یا کسی نےچرا لیا ؟ اسےعلم نہیں ہوسکا ۔ وہ گھر سےنکلتا تو اسےمحسوس ہوتا ابھی اس کےسر کا ٹیومر پھٹ جائےگا اور ابھی اس کی موت واقع ہوجائےگی ۔ اس کی لاش لاوارث لاش کی طرح سڑک پر بےگور و کفن پڑی رہےگی ۔ گھر والوں کو اس کی موت کی خبر بھی نہیں مل پائےگی ۔
آفس میں ہوتا تو کام کرتےکرتےبار بار اسےمحسوس ہوتا کہ اس کا ٹیومر ابھی پھٹ پڑےگا اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائےگا ۔ رات میں جب وہ سونےکےلئےلیٹتا تو ہر رات اسےمحسوس ہوتا یہ اس کی زندگی کی آخری رات ہے۔ رات کےکسی پہر اس کےسر کا ٹیومر پھٹ جائےگا اور سویرےگھر والوں کو بستر پر اس کی لاش ملےگی ۔
پتہ نہیں اس کی زندگی ایک پل کی بھی باقی ہےیا پھر اسےاس عذاب میں ابھی برسوں جینا ہے۔ وہ ترشنکو بن کر زندگی اور موت کےدرمیان لٹکا ہوا تھا ۔ نہ اسےزندگی اپنےموہ سےآزاد کرپارہی تھی اور نہ موت اسےگلےلگا رہی تھی ۔ وہ بوجھل قدموں سےریلوےاسٹیشن کی طرف بڑھ رہا تھا اچانک سر میں ہلکا ہلکا دردہونےلگا جس کی شدت بڑھتی جارہی تھی ۔ اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ پھر درد پھر دورہ ۔ اوہ گاڈ ! ۔ وہ گھر واپس پہنچ پائےگا بھی یا نہیں ؟
اور سر پکڑ کروہ ایک جگہ بیٹھ گیا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ( مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09372436628) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Akela By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Akela, M.Mubin, Short Story, Urdu

افسانہ

اکیلا

از:۔ایم مبین

اچانک اسےمحسوس ہوا کہ وہ جنگل میں بالکل تنہا ہے۔ اس بات کا احساس ہوتےہی وہ کانپ اٹھا ۔ اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔ خوف کی لہریں اس کےجسم میں دوڑنےلگیں اور ماتھےپر پسینےکی بوندیں ابھر آئیں ۔ آواز جیسےحلق میں گھٹ کر رہ گئی ۔
چاروں طرف دور دور تک پھیلا بھیانک جنگل اور اس پر چھایا پر ہول سناٹا اس کو کسی اژدھےکی طرح جکڑنےکےلئےآگےبڑھ رہا تھا ۔
جنگل کا ایک ایک گوشہ اسےپر آسیب اور پر خطر محسوس ہونےلگا ۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ سب اچانک کس طرح ہوگیا ؟
وہ اچانک جنگل میں کس طرح رہ گیا ہے؟
باوجود لاکھ کوشش کےوہ پتہ نہیں لگا سکا کہ وہ کب اور کیوں تنہا ہوا ۔ جہاں تک اسےیاد تھا وہ جنگل میں اکیلا نہیں تھا وہ تو کئی لوگوں میں گھرا ہوا تھا ۔ وہ سب ایک جگہ ساتھ بیٹھتےتھےآپس میں ہنسی مذاق کرتےتھےایک دوسرےکےدکھ درد اور تنہائیاں بانٹتےتھے۔ کسی کو کبھی محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ جنگل میں تنہا ہیں ان کےگھر بھی اطراف ہی میں تھےاور ایک طرح سےاس جنگل میں اس جگہ ایک اچھی خاصی بستی آباد تھی جس میں زندگی کی گہما گہمی تھی ۔ لیکن اسےیاد نہیں آرہا تھا وہ تمام اچانک کہاں اور کیسےاسےاس جگہ تنہا چھوڑ کر چلےگئےہیں اور تو اور جاتےوقت اپنےساتھ اپنےگھر اور اپنی ہر چیز بھی اس خوبی سےلےکر چلےگئےہیں کہ اس بات کا پتہ ہی نہیں چل سکا ۔
اچانک ہوا کےچلنےسےجنگل میں ایک خوفناک آواز گونجنےلگی اور اس آواز کو سن کر اس کا دل کسی خشک پتےکی طرح لرزنےلگا ۔
تم سب کہاں ہو ؟ “جب اس سےبرداشت نہیں ہو سکا تو وہ چیخ اٹھا ۔
تم لوگ مجھےاکیلا چھوڑ کر کہاں چلےگئےہو ؟ مجھےیہاں بہت ڈر لگ رہا ہے۔
لیکن اس کی آواز جنگل کےپرہول سناٹےمیں گونج کر رہ گئی وہ لاکھ اپنی صدا کےجواب میں جوابی صدا کےلئےبےچین رہا ۔ لیکن اس کی آواز کسی گنبد میں گونجنےوالی صدائےبازگشت بن کر رہ گئی اور اس جنگل میں گونجتی رہی ۔
وہ گونج لمحہ بہ لمحہ تیز سےتیز تر ہوتی گئی اور آخر میں اتنی خوفناک ہوگئی کہ اسےاپنےکانوں کےپردےپھٹتےمحسوس ہونےلگے۔ گھبرا کر اس آواز کی اذ

´ت سےبچنےکےلئےاس نےاپنےکانوں میں اپنی انگلیاں ٹھونس لیں ۔
اچانک ایک نیزا ہوا میں لہراتا ہوا آیا اور اس سےچند قدموں کےفاصلےپر آکر زمین میں پیوست ہوگیا ۔ خوف سےاس کا رنگ پیلا پڑ گیا اور سارا جسم پسینےمیں بھیگ گیا۔ اسےمحسوس ہوا کہ یہ پہلا اور آخری نیزا نہیں ہےوہ چاروں طرف سےنیزوں کےدرمیان گھرا ہوا ہے۔ وہ نیزےاس کےاطراف چھپےہوئےہیں ۔
اچانک اس پر نیزوں کی برسات سی ہونےلگی ۔ نیزوں کی نوکیں آکر اس کےجسم سےٹکرائیں گی اور اس کا جسم لہوہان ہوکر اپنی روح کو کھودےگا ۔ وہ اچھی طرح دیکھ رہا تھا اس کےچاروں طرف ہزاروں نیزےتنےہوئےہیں ۔ وقفہ وقفہ سےوہ نیزےاس کےقریب آ آ کر گر رہےتھے۔ کبھی کبھی کوئی نیزہ آکر اس کےجسم سےبھی ٹکرا جاتا اور اس کےجسم کو گھائل کردیتا ۔ یہ کیسا عذاب ہےاس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔ پہلےتو اس نےاس جگہ کبھی نیزوں کو نہیں دیکھا تھا پہلےتو اس پر کبھی اس طرح نیزوں سےحملہ نہیں ہوا تھا وہ آٹھ سالوں سےوہاں رہ رہا تھا ۔
اچانک اسےاپنےقریب لکڑی کا ایک ٹکڑا نظر آیا ۔ اس نےلکڑی کا وہ ٹکڑا اٹھا لیا اور اس سےڈھال کا کام لینےلگا ۔ جیسےہی ہوا میں سرسراتا ہوا کوئی نیزہ اس کےجسم کو چھونےکےلئےآگےبڑھتا وہ اس لکڑی کےٹکڑےسےاسےروک لیتا تھا ۔ وہ نیزہ رک جاتا تھا لیکن یہ بڑا مشکل کام تھا ۔ کیونکہ کبھی کبھی نیزےلکڑی کےٹکڑےمیں دھنس کر اس کےہاتھوں کو گھائل کردیتےتھے۔
اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا ان نیزوں سےاس پر کون اور کیوں حملہ کر رہا ہی؟ حملہ آور اسےدکھائی نہیں دےرہےتھے۔
اچانک اسےایک پیڑ کی آڑ میں ایک سایہ نظر آیا اس کےہاتھ میں نیزہ تھا اس کی طرف پھینکنےکےلئےجیسےہی اس نےنیزہ تانا اس نےاس کےسائےکو اچھی طرح دیکھ لیا ۔ اسےوہ شکل و صورت کچھ شناسا سی لگی ۔ تھوڑا یاد کرنےپر اسےیاد آیا کہ یہ وہی شخص ہےجو کچھ لمحوں پہلےاس کےساتھ تھا جب وہ تنہا نہیں تھا ۔ اسےبڑی حیرانی ہوئی ۔ کچھ لمحوں قبل تک کا کا اس کا مونس و غمخوار اس کا وہ دوست اس کی جان کےدرپےکیوں ہوگیا ہے؟ اس پر نیزےسےحملہ کیوں کررہا ہے؟ اس نےگھبرا کر چاروں طرف دیکھا تو اسےکچھ نظر نہیں آیا ۔ لیکن اسےمحسوس ہوا چاروں طرف درختوں کی آڑ میں اس پر حملہ کرنےکےلئےنیزےتانےوہی لوگ چھپےہوئےہیں جو کچھ لمحوں قبل تک اس کےساتھ تھے۔
تم ! تم لوگوں کو میں پہچان گیا ہوں ۔ تم مجھ پر حملہ کرکےمیری جان کیوں لینا چاہتےہو؟“ وہ چیخ اٹھا ۔
میں تمہارا دشمن نہیں ہوں ۔ تم بھی میرےدوست ہو ۔ کچھ دیر قبل تک ہم ساتھ ساتھ رہتےتھےاور ایک دوسرےکےمونس و غمخوار تھے۔ اس کی اس بات کو سن کر کئی چہرےدرختوں کی اوٹ سےباہر آئےوہ تمام چہرےاس کےشناسا تھے۔ لیکن اس وقت ان کےچہروں پر اس کےلئےدشمنی کےجذبےمچل رہےتھے۔ ان کےہونٹوں پر زہریلی مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں اس کےلئےنفرت کا جذبہ تھا ۔
تم لوگ میرےساتھی ہو ۔ پھر میری جان کیوں لینا چاہتےہو ؟ “ اس نےان سےپوچھا ۔
جواباً کئی نیزےاس کےجسم سےٹکرانےکےلئےآگےبڑھےاور وہ تمام چہرےپھر درختوں کی اوٹ میں چھپ گئے۔ اس نےجلدی سےخود کا بچاو

¿ کیا اور چیخ اٹھا ۔
بچاو

¿ ! بچاو

¿ ۔ میں مصیبت میں ہوں یہ لوگ جو کل تک میرےدوست تھےآج میری جان کےدرپےہیں مجھےمار ڈالنا چاہتےہیں ۔ بچاو

¿ میں سخت مصیبت میں ہوں ۔
ہمیں پتہ ہےتم سخت مصیبت میں ہو ۔ “ اسےدور سےایک شناسا آواز آتی محسوس ہوئی۔ اسےیاد آیا کہ یہ آواز بھی ان لوگوں میں سےکسی کی ہےجو کچھ لمحوں قبل اس کےساتھ تھے۔ ” پھر تم میری مدد کےلئےکیوں نہیں آرہےہو ؟ “ اس نےپوچھا ۔ ” ہم تم سےاتنی دور ہیں کہ چاہ کر بھی تمہاری مدد کےلئےنہیں آسکتےہیں ۔ ہمیں علم ہےتم کن مصیبتوں میں گھرےہوئےہو اور آئندہ تم پر کیا کیا مصیبتیں آنےوالی ہیں ۔ ہم جس جگہ ہیں وہاں ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم نےانہیں خطروں خدشوں کی وجہ سےوہ جگہ چھوڑ دی ۔
جب تمہیں علم تھا کہ اس جگہ رہنےمیں ہمیں خطرہ ہےاور انہی خطروں سےبچنےکےلئےتم یہاں سےچلےگئےہو ۔ تو تم نےمجھےبھی ساتھ کیوں نہیں لیا ‘ تم نےمجھےآنےوالےخطروں سےآگاہ کیوں نہیں کیا ؟
تم بھول رہےہو ۔ ہم نےتمہیں ان خطروں سےآگاہ کرتےہوئےاس جگہ کو چھوڑ دینےکا مشورہ دیا تھا لیکن تم نےہمارا مذاق اڑایا تھا اور یہ دلیل پیش کی تھی کہ اس جگہ کوئی خطرہ نہیں ہےخطرہ اس جگہ زیادہ ہےجہاں ہم خطروں سےبچنےکےلئےجارہےہیں ۔ خطرےیہاں بھی ہیں لیکن اس جگہ سےکم جہاں اس وقت تم ہو ۔ “ دور سےآواز آئی ‘ اس آواز کو سن کر اسےیاد آیا کبھی اس سلسلےمیں ان کی گفتگو ہوئی تھی لیکن اس نےان خدشوں کو یکسر بےبنیاد کہہ کر نظر انداز کردیا تھا ۔
اب تم ہی بتاو

¿ میں کیا کروں ؟ “ اس نےپوچھا ۔

لیکن اسےکوئی جواب نہیں ملا اس نےپھر دہرایا ۔ اس جگہ وہ بالک اکیلا ہےاور خطروں میں گھرا ہوا ہےان خطروں سےبچنےکےلئےاسےکچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے۔ جو لوگ اس کی جان کےدرپےہیں اسےان سےہی پوچھنا چاہیئےکہ وہ اس کی جان کےدرپےکیوں ہوگئےاور کیا چاہتےہیں ؟
سنو میری جان کےدشمنو ! میں تم سےپوچھ رہا ہوں ۔ تم جو کچھ لمحوں قبل تک میرےرفیق تھےاب میرےرقیب کیوں بن گئےہو ؟ تم میری جان کیوں لینا چاہتےہو؟“ ” ہم چاہتےہیں جس طرح تمہارےدوسرےساتھی اس جگہ کو چھوڑ کر چلےگئےہیں تم بھی چلےجاو

¿ ۔ “ درختوں کی اوٹ سےایک شناسا صورت ابھری ۔
لیکن کیوں ؟
کیونکہ یہ جگہ ہماری ہے۔
لیکن کچھ دیر قبل تو یہ جگہ کسی کی نہیں تھی ۔ یہ جگہ ہم سب کی تھی ۔ پھراب یہ جگہ میری نہ ہوکر صرف تمہاری کیوں ہوگئی ہے؟
جس لمحےتمہارےدوسرےساتھی اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلےگئےاور انہوں نےاس جگہ کو اپنی جگہ کہہ کر جنگل کی تقسیم کردی اسی لمحےسےیہ جگہ ہماری اور صرف ہماری ہوگئی ہے۔ اب تمہیں یہاں رہنےکا کوئی حق نہیں ہے۔ تم یہاں سےچلےجاو

¿ ۔ وہاں پر جہاں پر تمہارےدوسرےساتھی چلےگئےہیں “ ۔ ” لیکن تم بھی تو میرےساتھی ہو ‘ کیا میں تمہارےساتھ نہیں رہ سکتا ہوں؟
تم ہمارےساتھ نہیں رہ سکتے‘ تمہارےساتھی وہ تھےجو اس جگہ کو چھوڑ کر چلےگئے۔ اگر تم نےیہ جگہ نہیں چھوڑی تو ہم اسی طرح تم پر حملےکرتےرہیں گےاور تمہیں یہ جگہ چھوڑنےکےلئےمجبور کردیں گے۔ یا پھر تمہاری جان لےلیں گے۔
تم اتنےبدل کیوں گئےہو ؟ کسی کی جان لینےمیں بھی کوئی عار محسوس نہیں کررہےہو ‘ یہ تو وحشیوں کا کام ہے۔
جنگل میں وحشی ہی رہتےہیں ۔
تو مجھےیہ جگہ چھوڑ کر جانا ہی ہوگا ؟
ہاں ! “
ٹھیک ہےمیں اپنےساتھیوں سےکہتا ہوں کہ میں آرہا ہوں ساتھیو ! تم سچ کہتےہو یہاں میرےلئےبہت خطرےہیں ۔ میں ان خطروں سےنجات پانےکےلئےتمہارےپاس آرہا ہوں ۔
نہیں ! “ دور سےآواز آئی ۔ ” تم یہاں نہیں آسکتےاب یہاں کسی کو آنےکی اجازت نہیں ہے۔ اب ان خطروں سےنپٹنا ‘ وہاں رہنا یا نہ رہنا یا کہیں چلےجانا یہ تمہارا اپنا مسئلہ ہے۔ اس مسئلےکو تم ہی نپٹو ۔
یہ کیا مصیبت ہے۔ تم مجھےوہاں آنےنہیں دےرہےہو ۔ اور یہاں کےلوگ مجھےیہاں رہنےنہیں دینا چاہےہیں ۔ میں کیا کروں ؟ “ اسےکوئی جواب نہیں ملا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے؟ یہاں اسےخطرہ تھا ‘ لیکن کوئی ایسی جگہ بھی نہیں تھی جہاں جانےکےبعد وہ محفوظ ہوجائےاور یہاں تو خطرہ بدستور قائم تھا ہی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا جارہا تھا ۔ اچانک اسےاپنا گھر شعلوں میں گھرا ہوا نظر آیا ۔ وہ تیزی سےاپنےگھر کی آگ بجھانےکےلئےدوڑا ۔ لیکن پوری کوشش کےباوجود وہ اپنےگھر کو جلنےسےنہیں بچا سکا۔ اپنا ادھ جلا گھر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لیکن پھر ایک عزم سےاس نےاپنےآنسو پونچھے۔ صرف گھر ہی جلا ہےناں ؟ گھر تو دوبارہ بھی بن سکتا ہے۔ ابھی اس نےاپنا عزم پورا بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دلخراش چیخ نےاسےلرزا دیا۔ اسےاپنا بیٹا لہو لہان نظر آیا ۔ اس کا سارا جسم نیزو سےبھرا ہوا تھا ۔ اس کی آنکھیں بےجان تھیں ۔ بیٹےکی لاش دیکھ کر وہ چیخ اٹھا ۔ پتہ نہیں کتنی دیر تک وہ آہ و زاری کرتا رہا ۔ پھر یہ سوچ کر بیٹےکو دفن کرنےکےلئےگڑھا کھودنےلگا ۔
ایک دن انسان کےجسم کو اس کی روح کو چھوڑنا ہی ہے۔ کبھی جلدی کبھی دیر سے۔ شاید یہ بھی میرےبیٹےکی روح کا میرےبیٹےکےجسم کو چھوڑنےکا ایک بہانہ ہو۔
سنو ! “ اچانک وہ پوری قوت سےچیخ اٹھا ۔ ” تم یہ سوچ رہےہو کہ میں اکیلا اس جنگل میں نہیں رہ سکتا ؟ مجھےمیری تنہائی کا احساس دلاو

¿گے‘ مجھ پر طرح طرح کی مصیبتیں اور ظلم و ستم ڈھاو

¿گےتو میں یہ جنگل چھوڑ کر چلا جاو

¿ں گا ۔ لیکن یہ تمہارا خام خیال ہے۔ میں یہاں رہتا آیا ہوں اور میں یہیں رہوں گا ۔ مجھےبھی یہاں رہنےکا اتنا ہی حق ہےجتنا تم لوگوں کو ہے۔ میں یہ جگہ نہیں چھور سکتا ۔ چاہےمجھےکتنا بھی اذیتیں مصیبتیں کیوں نہ برداشت کرنی پڑیں “ ۔
تم سچ کہتےہو ! “ اچانک جنگل میں سینکڑوں آوازیں گونج اٹھیں ۔ ” تمہیں یہاں رہنےکا اتنا ہی حق ہےجتنا اور لوگوں کو حاصل ہے۔ سچ مچ یہ تنہائی ، یہ ظلم و ستم ، یہ مصیبتیں تمہیں گھبرا کر یہ جنگل چھوڑنےپر مجبور نہیں کر سکتیں ۔ ہم تمہاری تنہائی بانٹیں گے۔ ہم تمہاری آنےوالی مصیبتوں سےرکشا کریں گے۔ کیونکہ تمہارےجانےکےبعد ہم بھی یہاں اکیلےہو جائیں گے۔ ہم سب مل جل کر اس جنگل میں رہیں گےاور ایک دوسرےکی تنہائی دور کریں گے۔
نہیں یہ تم غلط کام کررہےہو “ ۔ اچانک دوسری سینکڑوں آوازیں جنگل میں گونجنےلگیں۔ ” تم اس کی مدد نہیں کرسکتے۔ اسےیہ جگہ چھوڑ کر جانا ہےاور ہر حال میں جانا ہے۔ ہم اسےیہ جگہ چھوڑنےکےلئےمجبور کردیں گےیا اس کےوجود کو ہی اس جگہ سےکردیں گے۔ یہ ناپاک وجود اس پوتر جگہ رہنےکےقابل ہی نہیں ہے“ ۔
ناپاک تمہارےخیالات ہیں ۔ جو دوسروں کو ناپاک کہتےہو “ ۔جواباً ہزاروں آوازیں ابھریں ۔ اور پھر دونوں طرف سےآوازیں ابھرنےلگیں ۔ آوازیں ایک بےہنگم کان کےپردےپھاڑ دینےوالےشور میں تبدیل ہونےلگیں ۔ کبھی اپنی حمایت میں ابھرنےوالی آوازیں سن کر اس کا دل خوشی سےجھوم اٹھتا اور سارےجسم میں ایک نیا عزم سرایت کرجاتا ۔ کبھی اپنی مخالفت میں اٹھنےوالی آوازیں سن کر اس کا وجود کسی خشک پتےکی طرح لرزنےلگتا ۔ سارا جسم پسینےمیں تر ہوجاتا اور وجود میں خدشات کا لاوا سا کھولنےلگتا۔ اور وہ گھبرا کر اپنےدونوں کانوں پر اپنےہاتھ رکھ دیتا ۔ اچانک اسےمحسوس ہوا اس پر چاروں طرف سےتیروں کی بارش ہورہی ہی۔ وہ گھبرا گیا اور اپنےہاتھوں میں پکڑی لکڑی سےڈھال کا کام لےکر خود کو ان نیزوں سےتیروں سےبچانےکی کوشش کرنےلگا۔ لیکن اسےمحسوس ہونےلگا وہ زیادہ دیر تک خود کو بچا نہیں پائےگا ۔ تیروں اور نیزوں کی تعداد اتنی ہےکہ کبھی نہ کبھی تو وہ اس کےوجود میں پیوست ہو کر اس کی روح کو جسم کی قید سےآزاد کردیں گے۔
اس کےلئےزیادہ دیر تک اپنا بچاو

¿ کرنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ لیکن اچانک اسےمحسوس ہوا ایک نظر نہ آنےوالی قوت بھی ہےجو اس کےساتھ ہےاور اس کا بچاو

¿ کررہی ہے۔ ورنہ ابھی تک تو یہ نیزےاور تیر کب کےاسےختم کرچکےہوتے۔ اس احساس نےاس کےاندر ایک نئی روح پھونک دی کہ وہ تنہا نہیں ہی۔ کوئی اور قوت بھی اس کےساتھ ہے۔ اور وہ ایک نئےجوش سےخود کی حفاظت کرنےلگا ۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ (مہاراشٹر)

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09372436628) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Matoob By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : M.Mubin, Matoob, Short Story, Urdu

افسانہ

معتوب

از؛۔ایم مبین

اس بازار سےگزرتےہوئےاس کےقدم لڑکھڑارہےتھے۔
اسےخدشہ محسوس ہورہا تھا یہاں اس کےساتھ وہی ہوگا جو ابھی تک اس کےساتھ ہوتا آیا ہے۔ وہ اس طرف جانےسےکترا رہا تھا ۔ اس نےبہت کوشش کی کہ اسےاس طرف جانےکی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ لیکن وہ اس طرف جانےکو ٹال نہیں سکا ۔ خیال آیا کہ رکشہ یا کسی سواری کےذریعہ اس بازار سےگزر جائے۔ لیکن وہ جس دور سےگذر رہا تھا ان حالات میں وہاں سےگذرنےکےلئےاسےسواری کرنےکی استطاعت نہیں تھی ۔
اس کےایک دوست کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا ۔
اس کا وہ دوست اسی کےساتھ کام کرتا تھا ۔ دونوں کےبہت قریبی تعلقات تھےاس لئےاس دوست کی بیوی کےانتقال کی خبر سننےکےبعد پرسہ دینےکےلئےاس کےگھر جانا بھی ضروری تھا ۔
وہ جانتا تھا دوست جہاں رہتا ہےاس راستہ میں وہ بازار پڑتا ہے۔ وہ ایک تنگ سڑک سی تھی جس کےدونوں طرف ہاکروں ‘ پھیری والوں نےاسٹال بنا رکھےتھے۔ ان چھوٹےچھوٹےلکڑی کےاسٹالوں پر ساری دنیا کی چیزیں بکتی تھیں ۔ ان اشیاءمیں کچھ غیر ملکی اشیاءبھی بکتی تھیں ۔ کچھ غیر ملکی اشیاءکی نقل جو اصل کےنام پر اصل کی آڑ میں بکتی تھیں ۔
اسٹالوں کی لمبائی چوڑائی بڑھتی ہی جاری تھی اور راستہ تنگ ہوتا جارہا تھا ۔ بڑی سواریاں تو اس سڑک سےگذر ہی نہیں سکتی تھیں ۔ دوسری سواریوں والےبھی اس راستےسےجانےسےکتراتےتھے۔ وہاں سےگذرنےکےلئےوہ دور کا لمبا راستہ پسند کرتےتھےاور اسی راستےکو ترجیح دیتےتھے۔
ہر راہگیر کو اس بازار سےتکلیف تھی ۔ ہر کوئی اس بازار کےخلاف آواز اٹھاتا تھا کہ اس بازار کی وجہ سےٹریفک میں خلل آتا ہےاور وہاں سےگذرنےمیں گھنٹوں لگ جاتےہیں ۔ اس لئےغیر قانونی بازار کو صاف کرکےٹریفک کی سب سےبڑی مشکل دور کی جائے۔
میونسپلٹی نےکئی بار اس بازار کو صاف کرنےکی کوشش کی تھی اس جگہ کو اجاڑنےمیں کئی دشواریاں پیش آئی تھیں ۔ بازار صاف بھی ہوا تھا لیکن دو دن کےبعد پھر بسنا شروع ہوا تھا اور آٹھ دن بعد پھر اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا تھا ۔
اس بازار کےسارےہاکر اور دھندہ کرنےوالےغنڈہ قسم کےلوگ تھےان سےکوئی بھی الجھنےکی کوشش نہیں کرتا تھا ۔
وہ کئی بار ان سےالجھ چکا تھا ۔ لیکن وہ ان سےاس وقت الجھا تھا جب اس کےپاس قوت تھی ۔ اب اسےوہاں سےگذرنا ہے۔
اگر انہوں نےاسےپہچان لیا تو ؟
وہ لوگ اسےپہچان تو لیں گے۔ بھلا وہ اسےکس طرح بھول سکتےہیں ۔ پہلےوہ آسانی سےان کاسامنا کرلیتا تھا کیونکہ اس وقت اس کےپاس قوت تھی ۔
لیکن اب وہ کس طرح ان کا سامنا کرےگا ؟
بس یہی سوچ کر اس جگہ سےگذرتےہوئےاس کےقدم لڑکھڑا رہےتھے۔ آخر اس نےہمت کرکےطےکیا کہ وہ تیز تیز قدم بڑھائے۔ مگر وہی ہوا جس کا اسےخدشہ تھا ۔ ایک اسٹال والےکی نظر اس پر پڑی اور اس نےاسےپہچان لیا ۔ اور آوازیں لگانی شروع کردی ۔
ارےبھائیو ! دیکھو ‘ دیکھو ‘ ہمارےاس بازار میں کون آیا ؟ ہمارےاس بازار میں موپنار صاحب آئےہیں ۔
موپنار صاحب ! کہاں ہیں موپنار صاحب ؟
سب چونک پڑےاور پھر چاروں طرف سےان اسٹالوں پر دھندہ کرنےوالوں نےاسےگھیر لیا ۔
نمستےموپنار صاحب ! “
کہیئےکیسےآنا ہوا ؟ کیا دوبارہ ہمارےاسٹال توڑنےکےلئےآئےہیں ‘ ارےآپ کےساتھ آپ کےوہ کمانڈو باڈی گارڈ دکھائی نہیں دےرہےہیں ۔ نہ آپ کےہاتھ میں وہ پستول ہےجو سرکار نےآپ کو اپنی حفاظت کےلئےہم معصوموں پر گولیاں چلانےکےلئےدی تھی ۔ آپ کےساتھ آپ کا وہ وحشی خونخوار دستہ بھی نہیں ہےجو آن کی آن میں ہماری زندگی بھر کی کمائی یہ اسٹال اور ہماری روزی روٹی تہس نہس کردیتا تھا ۔ آج کس کےسہارےہماری روزی چھیننےآئےہیں ؟
ارےآج یہ ہماری روزی کیا چھینےگا ؟ اس کی روزی تو کبھی کی چھینی جا چکی ہی۔ اب یہ صاحب نہیں ہےآفیسر نہیں ہےایک معمولی آدمی ہے۔ اسےاس کےعہدےسےہٹا دیا گیا ہے۔ یہ معطل ہےکچھ دنوں میں نکال بھی دیا جائےگا سالےنےہم پر بہت ظلم ڈھائےہیں ۔ آج موقع ہاتھ آیا ہےچاہو تو اس سےاس کےایک ایک ظلم کا حساب لےلو ۔ اس کی مدد کو کوئی نہیں آنےوالا ۔
ارےیار ! مرےہوئےکو کیا مارنا یہ تو پہلےہی مارا جا چکا ہے۔ یہ سرکاری آفیسر ہیں ناں ‘ ان کا عہدہ ‘ ان کی کرسی ان کی زندگی ہوتی ہے۔ اسی عہدے‘ کرسی کا وہ دل کھول کر ناجائز استعمال کرتےہیں ۔ لیکن اس کرسی سےہٹتےہی ان کی زندگی کتوں سےبدتر ہوجاتی ہے۔ یہ موپنار بھی اب ایک کتےسےزیادہ نہیں ہے۔ سڑک کا ایک آوارہ کتا جسےجو چاہےمار سکتا ہے۔
ارےجاو

¿ !

¿ پاگل ہوگئی ہے۔ اپنےمعصوم بیٹےکےقاتل کو موت کی نیند سلا کر شاید اسےسکون مل سکے۔
چاروں طرف سےآوازیں آرہی تھیں اور اس کا سارا جسم خوف سےکانپ رہا تھا ۔ جسم کےکپڑےپسینےمیں تر ہورہےتھے۔ آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھا رہا تھا ۔ اسےاپنی موت اپنےسامنےرقص کرتی محسوس ہورہی تھی ۔ سچ مچ اس نےان لوگوں کےساتھ جو کیا تھا ۔ یہ لوگ اس وقت آسانی سےاس کا بدلہ لےسکتےتھے۔ اسےموت کی میٹھی نیند سلا کر ۔
سچ مچ اس وقت اس کی مدد کو کوئی بھی نہیں آنےوالا تھا ۔
اپنےانجام کےبارےمیں سوچ سوچ کر ہی اس کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا چھا رہا تھا ۔ اچانک ایک بوڑھی عورت بھیڑ کو چیرتی ہوئی آگےبڑھی ۔
کہاں ہےمیرےبیٹےکا قاتل ‘ کہاں ہےمیرےبیٹےکا قاتل ؟
خالہ ! یہ ہےتمہارےبیٹےکا قاتل ۔ بہت دنوں کےبعد ہاتھ آیا ہے۔ آج تم اس سےاپنےبچےکی موت کا بدلہ لےسکتی ہو ۔ ہم تمہارےساتھ ہیں ۔
ارےظالم ! تجھےمیرےمعصوم اکلوتےبیٹےکو مار کر کیا ملا ‘ کیا بگاڑا تھا اس نےتیرا ‘ تیری اس سےکیا دشمنی تھی ۔ تجھےدشمنی ان پھیری والوں سےتھی ناں تو ان کو گولی مارتا ؟ میرا بیٹا تو پھیری نہیں کرتا تھا …….. ! وہ تو اسکول جاتا تھا اسکول ۔ وہ میری زندگی کا آخری سہارا تھا پھر تُونےکیوں اسےگولی ماری بول ‘ پھر تُونےاسےکیوں گولی ماری ؟
بڑھیا اس سےلپٹ گئی اور گریبان پکڑ کر جھنجھوڑنےلگی ۔
جا …….. ! تُونےمیری زندگی برباد کی ۔ خدا تیری بھی زندگی برباد کرےگا۔ میں تجھ کو بددعا دیتی ہوں ‘ تُونےمیری زندگی کا سکون چھینا ہے۔ تجھےزندگی بھر سکون نہیں ملےگا ‘ تُو زندگی بھر سکون کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھائےگا ‘ جا چلا جا ۔ میری آنکھوں سےدور ہوجا ظالم ‘ میری آنکھوں سےدور ہوجا ۔ “ یہ کہتی ہوئی بڑھیا روتی ہوئی واپس بھیڑ میں گم ہوگئی ۔
ارےاس کےساتھ کیا ‘ کیا جائے؟ ہاجرہ خالہ نےتو اسےچھوڑ دیا ۔
ارےجس کی زندگی اس نےچھین لی اس نےاسےچھوڑ دیا ۔ تو ہماری حیثیت ہی کیا ۔ اس نےتو جتنی بار ہمیں اجاڑا ہم آباد ہوگئے۔ پھر ہم اس سےکیا بدلہ لیں ۔ میرےخیال میں اسےچھوڑ دیا جائے۔ “ کوئی بولا ۔
ہاں ! ہاں ۔ اسےاس کےحال پر چھوڑ دیا جائے۔ “ کہہ کر بھیڑ ایک طرف ہٹ گئی ۔
جائیےموپنار صاحب ! جہاں جانا ہےبےخطر جائیے۔ “ کوئی بولا ۔
چھٹتی بھیڑ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی ۔
اس نےاپنےماتھےپر آئےپسینےکو صاف کیا ۔ پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پایا اور پھر تیز تیز قدموں سےآگےبڑھ گیا ۔
جہاں تک ان لوگوں اور اس علاقےکا تعلق تھا۔اپنی دانست میں اس نےاس جگہ کےلئےسب سےزیادہ ایمانداری اور دیانت داری سےاپنےفرض کو ادا کیا تھا ۔ بار بار اپنےدستےکےذریعہ اس نےاس علاقےکےاسٹال توڑےتھےانہیں اجاڑا تھا ۔ بار بار یہ لوگ دوبارہ اسٹال بناتےاور ہر بار یہ انہیں اجاڑتا ۔
اس جگہ ایک بار اس پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا ۔
ظاہر سی بات ہےجس کی زندگی لٹ رہی ہو بدلےمیں وہ اس کےعلاوہ کوئی قدم اٹھا ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس کی زندگی کو درپیش خطرےکو دیکھتےہوئےسرکار نےاسےپستول اور دو باڈی گارڈ اور بےشمار پولس دی تھی ۔
ایک بار اس جگہ اپنی حفاظت کےلئےاس نےگولی چلائی اور اس گولی سےاس پر حملہ کرنےوالا تو نہیں مرسکا ۔ مر گیا ایک معصوم بچہ ۔
جو اس بوڑھی ہاجرہ کا تھا ۔
اس کی گولی سےایک بچہ مرا ہےاسےاس کا احساس تھا ۔ اس کےعلاوہ اس نےکبھی اس سےزیادہ سوچا بھی نہیں تھا ۔
لیکن اس موت کےاتنےخوفناک اثرات ہونےہوں گےاس نےکبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔
سرکار نےتو اس بچےکےمرنےپر اس کےخلاف کوئی کاروائی بھی نہیں کی تھی ۔ ہر کسی نےاس کو بےگناہ معصوم قرار دیا تھا ۔ ہر کسی کا کہنا تھا کہ اس نےاپنےفرض کو ادا کرتےہوئےاپنی حفاظت کےلئےگولی چلائی ہے۔ اسےاپنی حفاظت کےلئےگولی چلانےکا حق ہے۔ سرکار اس سلسلےمیں اس کےخلاف کاروائی نہ کرے۔
اس کی مخالفت میں اٹھنےوالی آوازوں سےزیادہ اس کی حمایت میں اٹھنےوالی آوازیں بلند تھیں ۔ اس لئےاس کی مخالفت میں اٹھنےوالی آوازیں دب کر رہ گئیں ۔
اپنےدوست کو پرسہ دےکر جب وہ گھر آیا تو رات بھر چین سےسو نہیں سکا ۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا ۔ نیند اس کی آنکھوں سےغائب رہی ۔ وہ اس رات اپنےاوپر مسلط عذاب کو کچھ زیادہ ہی شدت سےمحسوس کررہا تھا ۔

آج وہ بچ گیا ۔ ممکن تھا آج ان بپھرےہوئےلوگوں کےہاتھوں اس کی موت ہوجاتی ۔ یا بوڑھی جس کا جوان بیٹا اس کےہاتھوں مارا گیا ہےبدلےمیں اس کی جان لےلیتی ۔ اگر وہ بھیڑ چاہتی تو بدلےمیں اسےمار مار کر ادھ مرا ضرور کرسکتی تھی ۔
آج وہ بچ گیا ۔
لیکن آخر اس طرح کب تک بچتا رہےگا ؟
کیا اس کی قسمت میں اس طرح کسی دن کسی کےہاتھوں ہلاک ہونا لکھا ہے؟ لیکن آخر اسےیہ کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ آج ساری دنیا اس کی دشمن کیوں ہے؟
اس نےجو کچھ کیا اپنا فرض نبھاتےہوئےکیا تھا ۔ لیکن اس فرض کےنبھانےنےاس زمانےکو اس کا دشمن بنا لیا ہے۔
ابھی پرسوں کی بات ہے۔ ایک بلڈر نےاسےدھر لیا تھا ۔
موپنار صاحب ! یاد ہےآپ نےمیری پوری بلڈنگ کو غیر قانونی قرار دےکر توڑ دیا تھا ‘ کیا ہوا ؟ میری وہ بلڈنگ تو دوبارہ بن گئی ۔ میں نےاس بلڈنگ میں پہلےسےزیادہ پیسہ کما لیا ہےنقصان کس کا ہوا ؟ آپ کا ہی ہوا ناں ؟ میں نےتواس بلڈنگ کو نہ توڑنےکےلئےآپ کو لاکھوں روپےکا آفر دیا تھا اور آپ نےاسےٹھکرا دیا تھا ۔ اگر آپ وہ آفر نہ ٹھکراتےتو فائدہ آپ کا ہی ہوتا ۔ دیکھئےمیں بڑا دل والا ہوں ۔ میں نےآپ کو معاف کردیا لیکن کئی لوگ آپ کو معاف نہیں کرسکتےجن کی عمارتیں آپ نےتوڑی ہیں ۔ وہ بدلےکی آگ میں سلگ رہےہیں ۔ اب تک انہوں نےآپ کےخلاف کوئی قدم اس لئےنہیں اٹھایا تھا کیونکہ آپ ایک بڑےسرکاری عہدےپر تھے۔ آپ کےساتھ پوری سرکاری مشنری تھی ۔ لیکن آج تو آپ کا سایہ بھی آپ کےساتھ نہیں ہےجس سرکار کےلئےآپ نےیہ سب کیا اس نےآپ کی حفاظت کےلئےایک پولس کا سپاہی بھی نہیں دیا ہے۔
وہ لوگ بدلےکی آگ میں جل رہےہیں اور وہ آپ سےبدلہ لینےکےلئےکبھی بھی آپ کو کتےکی موت مار سکتےہیں ۔ اس لئےمیرا آپ کو مشورہ ہےاگر آپ اپنی زندگی بچانا چاہتےہیں تو یہ شہر چھوڑ کر چلےجائیں ۔ اپنےگاو

¿نوکری سےآپ کو معطل کیا گیا ہےوہ نوکری آپ کو اب ملنےوالی نہیں ہے۔ بلکہ سرکار تو آپ کےخلاف اقدامات کی فہرست تیار کر رہی ہےاور ممکن ہےکہ ان الزامات کو ثابت کرکےزندگی بھر کےلئےآپ کو جیل کی کالی کوٹھری میں بھیج دے۔ اس لئےآپ کی بھلائی اسی میں ہےکہ نوکری سےاستعفیٰ دےدیں اور سارےمعاملےکو ختم کردیں ۔
اس بلڈر کی بات بھی درست تھی ۔ شہر کےکئی خونخوار بلڈر اس کےخون کےپیاسےتھےوہ کبھی بھی اس سےبدلہ لےسکتےتھے۔ اور کل تک سرکار نےاس کےجن کاموں کو فرض قرار دیا تھا آج انہیں جرم قرار دےکر اسےمجرم ثابت کرنےکی کوشش کررہی ہے۔
کچھ سیاسی لیڈروں نےاس کےعہدےکا فائدہ اٹھا کر اس پر سیاسی دباو

¿ بلڈنگوں کو توڑنےکےالزام میں اس پر مقدمہ چلانےکےلئےاسےگرفتار کرنےکی تیاریاں کی جارہی تھیں ۔
اس نےاپنےعہدےپر رہتےہوئےاپنی مرضی سےکام کم دوسروں کےحکم اور دباو

¿ بلڈنگ کےخلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے۔ “ اور وہ کاروائی نہیں کرتا ۔
کبھی کسی کا حکم آتا ۔ ” اس شخص کی بلڈنگ توڑدی جائےچاہےوہ قانونی ہو یا غیر قانونی ۔ “ وہ توڑ دیتا ۔
کوئی سیاسی آقا اسےحکم دیتا ۔ ” جاو

¿ تاراج کردیتا ۔
وہی سیاسی آقا اسےحکم دیتا ۔ ” اس علاقےمیں قدم بھی نہیں رکھنا ۔ “ وہ چاہتےہوئےبھی اس علاقےکی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا ۔
اس سیاسی آقا کےلئےاس کےدل میں ہمدردی تھی اور اس کےاشارےپر وہ ہر کام کرتا تھا ۔ چاہےوہ غلط ہو یا صحیح ۔ جائز ہو یا ناجائز ۔ کبھی اس نےاس بارےمیں نہیں سوچا تھا ۔ آقا کا ہر حکم بجا لاتا تھا ۔ اور اس حکم کو بجالانےمیں اپنےرسوخ اور قوت کا بھرپور اور بےجا استعمال کیا تھا ۔
لیکن آج وہ سیاسی آقا بھی اس کی کسی طرح سےمدد کرنےکو تیار نہیں ہے۔ وہ خاموش ہےاور کبھی کبھی تو اسےگالیاں دینےلگتا ہے۔
وہ چاہتا تو اس سیاسی آقا کو بھی دنیا کےسامنےننگا کرسکتا تھا کہ اس کےاشارےپر اس نےکیسےکیسےگھناونےکام کئےہیں ۔
لیکن وہ مجبور تھا ۔ اس کےخلاف زبان بھی نہیں ہلا سکتا تھا ۔ کیونکہ وہ جانتا تھا اس آقا کی طاقت اتنی زبردست ہےکہ اس کےخلاف اس کےمنھ سےاگر ایک لفظ بھی نکلا تو اس کےچیتھڑےاڑجائیں گے۔
اسےایک سیای لیڈر کےخلاف منھ کھولنےکی سزا مل رہی تھی ۔ اس نےاس سیاسی لیڈر کےخلاف منھ کھولا تھا تو سچائی پیش کی تھی ۔ کوئی الزام نہیں لگایا تھا نہ اس پر تہمت لگائی تھی ۔
اور اس طرح کا بیان دیتےہوئےاس نےاپنی دانست میں ایک فرض ادا کیا تھا ۔ لیکن اس کا انجام کیا ہوا ؟
اس کی ہی مشنری اس کےخلاف حرکت میں آگئی ۔ اور اس کو چند وجوہات کا سہارا لےکر معطل کردیا گیا ۔ ا سکی ساری قوت اس کا عہدہ چھین لیا گیا ۔ اسےمفلوج کرکےگھر بھیج دیا گیا ۔
آج وہ اکیلا ہےکمزور ہے۔ اپنی خود کی حفاظت نہیں کرسکتا ۔ اس کےچاروں طرف اس کےدشمن ہیں ۔ جو دھیرےدھیرےاسےگھیر رہےہیں ۔ وہ اس کا کیا حشر کریں گےاس کا اسےاندازہ ہے۔
اس کا کوئی بھی ہم درد نہیں ہے‘ کوئی جھوٹی ہم دردی بھی اس کےساتھ جتانےکےلئےتیار نہیں ہے۔ اس کےاچھےکاموں کا کوئی بھی ذکر تک نہیں کرتا ۔ ہر کوئی اس کےظلم و ستم اور مظالم کا ذکر کرتا رہتا ہےاور اس کےفرائض کےانجام دینےکو بھی ظلم قرار دیتا ہے۔
اسےنوکری سےمعطل کردیا گیا ہے۔ اس نوکری کو دوبارہ حاصل کرنےکےلئےوہ لڑ رہا ہے۔ لیکن اسےخود یقین ہوچلا ہےکہ اب دوبارہ اسےوہ نوکری ‘ وہ عہدہ اور وہ قوت نہیں مل سکتی ۔ اور جو الزامات اس پر لگا کر اس کےخلاف جو چارج شیٹ تیار کی جارہی ہے۔ ہوسکتا ہےاس سےاسےسزا بھی ہوجائے۔
یہ سب اس کےساتھ کس لئےہورہا ہے؟
صرف اس لئےکہ اس نےپوری ایمان داری اور دیانت داری سےاپنا فرض انجام دیا تھا ۔
صرف اس لئےکہ اس نےاپنےسیاسی آقاو

¿تھا ۔ اور جو انہوں نےچاہا تھا وہ کرکےدکھایا تھا ۔
آج وہی آقا اس کےخلاف ہیں اور اسےسزا دلانےکےلئےکوشاں ہیں ۔ کل تک وہ سب کےلئےعتاب تھا ۔ جس پر چاہتا تھا عذاب بن کر نازل ہوتا تھا ۔
آج و ہ خود معتوب ہے۔
ہر عذاب اس پر گر رہا ہے۔ وہ کئی عذابوں میں مبتلاہے۔

پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)

M.Mubin

Classic Plaza, Teen Batti

BHIWANDI_ 421302

Dist.Thane Maharashtra India)

Mob:- 09322338918) )

mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Jila Watan By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 09-07-2011

Tags : Jila Watan, M.Mubin, Short Story, Urdu

=a8 �p- o �\u p�w pace> Tariki, Urdu �po p �\u p�w span>
¿
اے! کیا کھسر پسر چالو ہے؟“ ان کی سرگوشیاں سن کر ایک سپاہی دہاڑا تو وہ سہم کر چپ ہوگئے۔ ذہن میں پھر وسوسےسر اٹھانےلگے۔ اگر اشوک پر کوئی فردِ جرم عائد کرکےگرفتار کرلیا گیا تو اسےبھی بخشا نہیں جائےگا ۔ اشوک کی مدد کرنےوالا ساتھی اسےقرار دےکر اس پر بھی وہی فردِ جرم عائد کرنا کون سی بڑی بات ہے۔ پولس تو ان پر فردِ جرم عائد کرکےانہیں عدالت میں پیش کردےگی ۔ انہیں عدالت میں اپنی بےگناہی ثابت کرنی ہوگی ۔ اور اس بےگناہی کو ثابت کرنےمیں سالوں لگ جائیں گی۔ سالوں عدالت کچہری کےچکر ۔ اس تصور سےہی اس کو جھرجھری آگئی ۔ پھر لوگ کیا کہیں گےکس کس کو وہ اپنی بےگناہی کی داستان سنا کر اپنی صفائی پیش کریں گے۔
اگر پولس نےان پر فرد جرم عائد کی تو معاملہ صرف عدالت تک محدود نہیں رہےگا ۔ پولس ان کےبارےمیں بڑھا چڑھا کر اخبارات میں بھی ان کےجرم کی کہانی چھپوادےگی ۔ اخبار والےتو اس طرح کی کہانیوں کی تاک میں ہی رہتےہیں ۔
دو سفید پوشوں کےکالےکارنامے۔
ایک آفس میں کام کرنےوالےدو کلرک دہشت گردوں کےساتھی نکلی۔
ایک بدنام زمانہ گینگ سےتعلق رکھنےوالےدو غنڈےگرفتار ۔
فساد کرنےکےلئےہتھیار لےجاتےہوئےدو غنڈےگرفتار ۔
شہر کےدو شریف باشندوں کا تعلق خطرناک دہشت پسندوں سےنکلا ۔ “ ان باتوں کو سوچ کر وہ اپنا سر پکڑ لیتا ۔ جیسےجیسےوقت گذر رہا تھا ۔ اس کی حالت غیر ہورہی تھی اور اسےان باتوں خیالوں سےنجات حاصل کرنا مشکل ہورہا تھا ۔
گیارہ بجےکےقریب انسپکٹر آیا وہ غصےمیں بھرا تھا ۔
نالائق ، پاجی ، حرامی ، سالےکچھ بھی جھوٹی اطلاعیں دےکر ہمارا وقت خراب کرتےہیں۔ اطلاع ہےکہ دہشت گرد ریلوےاسٹیشن سےخطرناک اسلحہ لےکر جانےوالےہیں ۔ کہاں ہیں دہشت گرد ‘ کہاں ہےاسلحہ ؟ چار گھنٹےریلوےاسٹیشن پر مغز پاشی کرنی پڑی ۔ رامو یہ کون لوگ ہیں ؟
انہیں ریلوےاسٹیشن پر شک میں گرفتار کیا گیا تھا ۔
ایک ایک کو میرےپاس بھیجو ۔
ایک ایک آدمی اٹھ کر انسپکٹر کےپاس جانےلگا اور سپاہی اسےبتانےلگےکہ اس شخص کو کس لئےگرفتار کیا گیا ہے۔
اس کےپاس سےتیزاب کی بوتل ملی ہے۔
صاحب ! وہ تیزاب مہلک نہیں ہے۔ اس سےمیں اپنےبیمار باپ کےکپڑےدھوتا ہوں ۔ وہ میں نےایک میڈیکل اسٹور سےخریدی تھی ۔ اس کی رسید بھی میرےپاس ہےاور جس ڈاکٹر نےیہ لکھ کر دی ہےاس ڈاکٹر کی چٹھی بھی ۔ یہ جراثیم کش تیزاب ہے۔ برف کی طرح ٹھنڈا ۔ “ وہ شخص اپنی صفائی پیش کرنےلگا ۔
جانتےہو تیزاب لےکر لوکل میں سفر کرنا جرم ہے؟
جانتا ہوں صاحب ! لیکن یہ تیزاب آگ لگانےوالا نہیں ہے۔
زیادہ منہ زوری مت کرو ۔ تمہارےپاس تیزاب ملا ہے۔ ہم تمہیں تیزاب لےکر سفر کرنےکےجرم میں گرفتار کرسکتےہیں ۔
اب میں کیا کہوں صاحب ! “ وہ آدمی بےبسی سےانسپکٹر کا منہ تکنےلگا ۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو لیکن آئندہ تیزاب لےکر ٹرین میں سفر نہیں کرنا۔
نہیں صاحب ! اب تو ایسی غلطی پھر کبھی نہیں ہوگی ۔ “ کہتا ہوا وہ آدمی اپنا سامان اٹھا کر تیزی سےپولس اسٹیشن کےباہر چلا گیا ۔
اب اشوک کی باری تھی ۔
ہم دونوں ایک کمپنی کےسیلس ڈپارٹمنٹ میں کام کرتےہیں ۔ یہ ہمارےکارڈ ہیں ۔ کہتےاشوک نےاپنا کارڈ دکھایا میں نےیہ چھریوں کا سیٹ گھریلو استعمال کےلئےخریدا تھا اور گھر لےجارہا تھا ۔ آپ خود دیکھئےیہ گھریلو استعمال کی چھریاں ہیں ۔
صاب ان کی دھار بہت تیز ہے۔ “درمیان میں سپاہی بول اٹھا ۔
انسپکٹر ایک ایک چھری اٹھا کر اس کی دھار پرکھنےلگا ۔
سچ مچ ان کی دھار بہت تیز ہے۔ ان کےایک ہی وار سےکسی کی جان بھی لی جاسکتی ہے۔
اس بارےمیں میں کیا کہہ سکتا ہوں صاحب ! “ اشوک بولا ۔ ” کمپنی نےاس طرح کی دھار بنائی ہے۔ کمپنی کو اتنی تیز دھار والی گھریلو استعمال کی چھریاں نہیں بنانی چاہیئے۔
ٹھیک ہےتم جاسکتےہو ۔ انسپکٹر اشوک سےبولا اور اس سےمخاطب ہوا ۔
تم ؟
صاحب ! یہ اس کےساتھ تھا ۔
تم بھی جاسکتےہو لیکن سنو ۔ “ اس نےاشوک کو روکا ۔ پورےشہر میں اس طرح کی تلاشیاں چل رہی ہیں ۔ یہاں سےجانےکےبعد ممکن ہےتم ان چھریوں کی وجہ سےکسی اور جگہ دھر لئےجاو
¿
نہیں انسپکٹر صاحب ! اب مجھ میں یہ چھریاں لےجانےکی ہمت نہیں ہے۔ میں اسےیہیں چھوڑےجاتا ہوں ۔ “ اشوک بولا تو انسپکٹر اور سپاہی کےچہرےپر فاتحانہ مسکراہٹ ابھر آئی ۔
وہ دونوں اپنےاپنےبریف کیس اٹھا کر پولس اسٹیشن کےباہر آئےتو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسےانہیں جہنم سےرہائی کا حکم مل گیا ہے۔ ٭٭٭
پتہ:۔ ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتی،
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
پتہ:۔
ایم مبین
٣٠٣،کلاسک پلازہ،تین بتتی
بھیونڈی ٢٠٣ ١٢٤
ضلع تھانہ ( مہاراشٹر)
M.Mubin
Classic Plaza, Teen Batti
BHIWANDI_ 421302
Dist.Thane Maharashtra India)
Mob:- 09322338918) )
mmubin123@yahoo.com

Urdu Short Story Dahshat By M.Mubin

Filed under Uncategorized by adabnama on 20-11-2010

0 comments:

Post a Comment

 
Copyright (c) 2010 Kahani Nagari Centre of Short Storeis in Hindi and Powered by Blogger.